رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے نقصانات کے حوالے سے جاری گرما گرم بحث گزشتہ ہفتے اپنی انتہا کو اس وقت پہنچی جب اس شعبے سے وابستہ ماہرین نے اتفاق کیا کہ جس رفتار سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں ترقی ہورہی ہے، یہ ممکنہ طور پر دنیا کا خاتمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی جس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے اس رفتار سے انسان اسے کنٹرول کرنے کے طریقے تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مشین لینگویج چیٹ بوٹس، جلد ہی انسان کی کوششوں کو ناکارہ بنا سکتے ہیں۔

خطرے کی یہ گھنٹی ان کمپنیوں کے مالکان نے بجائی ہے جنہیں اس ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ انہوں نے اتفاقِ رائے سے سینٹر فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس سیفٹی کی جانب سے بیان جاری کیا کہ ’وبائی امراض اور ایٹمی جنگ کی طرح اے آئی کی وجہ سے انسانیت کو لاحق خطرات سے نمٹنا بھی عالمی ترجیح ہونی چاہیے‘۔ اس بیان پر دستخط کرنے والے ایگزیکٹوز میں اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین، گوگل ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسابیس، اور اینتھروپک کے ڈاریو آموڈی شامل ہیں۔

ان سربراہان کے علاوہ 350 دیگر محقیقین، انجینیئرز اور سائنسدانوں نے بھی اس بیان پر دستخط کیے ہیں کیونکہ انہیں یہ خدشات ہیں کہ اے آئی کی ترقی ایسے دور میں داخل ہوجائے گی جہاں وہ انسانوں کے زیرِ انتظام نہیں رہے گا۔

اوپن اے آئی کے چیف سیم آلٹمین نے تجویز پیش کی کہ جس طرح انٹرنیشنل ایٹامک ایجنسی، ایٹمی ٹیکنالوجی اور اس کے استعمال سے دنیا کو تباہ کرنے والے ہتھیار بنانے والے عناصر کی نگرانی کرتی ہے، اسی طرح اے آئی کی نگرانی کے لیے عالمی سطح پر ایک ادارہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

ذرا تصور کریں کہ اے آئی میں بھی ممالک کے درمیان دوڑ شروع ہوگئی تو دنیا کا منظرنامہ کیا ہوگا۔ ایسے میں نقصان پہنچانے والے کردار ٹرانسپورٹیشن کے نظام، فلائٹ آپریٹنگ سسٹم، یوٹیلیٹیز اور تمام اقسام کے نظام کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے اے آئی کے خطرناک پہلوؤں کو استعمال کریں گے۔

جس طرح آج دہشت گردوں کے ایٹم بم پر قبضہ کرلینے کا مستقل خطرہ لوگوں کو خوفزدہ کرتا ہے، اسی طرح کل اے آئی کی ترقی سے انسانیت کی معدومیت کا امکان لوگوں کو خوفزدہ کرے گا۔ اگر آپ صورت حال کو اس حققت کے تناظر میں دیکھیں کہ ایٹمی نگرانی اس وقت میں شروع کی گئی جب آئینی لبرل ازم کا دور تھا اور بین الاقوامی تعاون اپنے آپ میں قابلِ قدر سمجھا جاتا تھا تو آج کا دور بہت سے لوگوں کے لیے زیادہ تشویش ناک ہوجاتا ہے۔

آج کے دور میں، دنیا اس بنیادی سوال کے جواب کے لیے بھی متفق نہیں ہو پارہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کُن اثرات کو کیسے روکا جائے۔ یہ دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان مزید کم ہوجاتا ہے کہ اے آئی کی نگرانی کے لیے کسی ادارے کی تشکیل عمل میں آئے گی جو متفقہ اصولوں کی بنیاد پر معاملات کی نگرانی کرے گا۔ موجودہ معاملات کی سنگینی کو دیکھ کر اندازے لگائے جارہے ہیں کہ آیا اس کا نتیجہ موسمیاتی تباہی اور رہنے کے لیے انتہائی گرم زمین ہوگی یا پھر اے آئی کی ترقی پہلے ہی انسانیت کے خاتمے کا پروانہ ثابت ہوجائے گی۔

ان تمام خدشات کے باوجود یہاں اے آئی کے بنائے ہوئے ٹولز کی تعریف ضرور کرنا چاہوں گی۔ امریکی یونیورسٹی کی ایک پروفیسر سے سوال کیا گیا کہ وہ طلبہ کے چیٹ جی پی ٹی کے استعمال کو کیسے ہینڈل کرتی ہیں جس کے جواب میں انہوں نے کندھے اچکائے اور کہا کہ وہ اس حوالے سے کچھ نہیں کررہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے ردعمل دیا کہ امریکا کے ہائی اسکولوں میں بچوں کی تحریر بہتر بنانے کا معیار انتہائی خراب ہوچکا ہے اور طلبہ کی تحریروں کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ طلبہ اے آئی کے استعمال سے اگر پڑھنے کے قابل پیپرز لکھیں گے تو انہیں خوشی ہوگی۔

جنریشن زی کہلائی جانے والی یہ نسل جسے وہ دور یاد نہیں جب انٹرنیٹ نہیں ہوا کرتا تھا، انہوں نے اس طرح کے ٹولز کو قبول کرلیا ہے اور غیرتخلیقی تحریروں، جیسے ہدایتی کتابچے بنانے یا ایک جگہ سے دوسری جگہ ہدایات دینے کے لیے وہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کررہے ہیں۔ ایسے وقت کو تصور کرنا مشکل نہیں ہے جب یہ نسل کام کرنے سے جس حد تک ہوسکے بچنے کی کوشش کرے گی اور مصنوعی ذہانت کے بغیر دنیا کا تصور ہی نہیں کرپائے گی۔

اے آئی سے متعلق امید اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ سیم آلٹمین اور ان جیسے دیگر کمپنیوں کے سربراہان نے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہوں نے اے آئی ٹیکنالوجی میں صرف اس لیے سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ یہ ٹیکنالوجی دنیا کو بہتر بنا سکتی ہے۔ معلومات کے وسیع ذخیرے کو ترتیب دینے کی صلاحیت، چاہے وہ بائیو مڈیسن، تعلیم یا توانائی کی معلومات ہو، وسائل کے استعمال کو کافی حد تک بہتر بنا سکتی ہے۔

اے آئی کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ممکنہ ترقی اور بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث بہت سی کمپنیاں، مشین پر منحصر دنیا میں بہتر سے بہتر اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

اسی دوران اس بات کی نشان دہی کرنا بھی ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی تک رسائی رکھنے اور نہ رکھنے والوں کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ مصنوعی ذہانت صلاحیتوں کے استعمال میں نئی حدود کا تعین کررہی ہے، اس کے باوجود محنت کش طبقے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

اب بھی دنیا کے ایسے لاتعداد حصے ہیں جہاں لوگوں کو پینے کے صاف پانی، ویکسینیشن اور صفائی کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بڑھتی آبادی کے باوجود بھوک اور غذائیت کی کمی اور موسمیاتی آفات کے باعث انسانیت کے خاتمے کے امکانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک اور مسئلہ جو اے آئی کے لیے حل کرنا ضروری ہے وہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو ایک ساتھ جوڑنا ہے۔

مصنوعی ذہانت کی افادیت کا پیمانہ اس بات سے طے کیا جاسکتا ہے کہ یہ آج کے دور میں عالمی برادری کو درپیش پیچیدہ مسائل کا حل پیش کرنے میں کس حد تک موثر ہے۔ سُپرکمپیوٹر شاید ڈیٹا بنانے کے قابل ہو لیکن کیا یہ نقل سے آگے بڑھ کر خود کچھ تخیلق کرسکتا ہے؟ دنیا اور ہم سب کو بہت جلد اس سوال کا جواب مل جائے گا۔


یہ مضمون 8 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں