رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

حال ہی میں بحیرہِ روم میں تارکینِ وطن افراد کی کشتی الٹنے کا واقعہ رونما ہوا۔ اسے تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دیا جارہا ہے۔ ایک ہفتہ قبل تارکینِ وطن افراد کو لے جانے والی اس کشتی کے انجن میں خرابی پیش آئی۔ اس کشتی میں تقریباً 750 افراد سوار تھے جن میں سے تقریباً 400 کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔ 3 دنوں تک سمندر میں پھنسے رہنے کے بعد یہ کشتی الٹ گئی جس سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور صرف 104 افراد کو ریسکیو کیا جاسکا۔ زندہ بچ جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد صرف 12 ہے۔

اسمگلروں نے تارکینِ وطن کو لیبیا کے راستے اٹلی لے جانے کا وعدہ کیا تھا لیکن یونان کے ساحل کے قریب کشتی کو حادثہ پیش آیا۔ کشتی حادثے کی خبر پھیلنے کے چند گھنٹے بعد اس میں سوار مصری، شامی، پاکستانی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تاریکینِ وطن افراد کے لواحقین یونان کے شہر کالاماتا میں جمع ہونا شروع ہوگئے تاکہ معلوم کرسکیں کہ ان کے عزیز زندہ ہیں یا نہیں۔ کشتی میں سوار زیادہ تر افراد جاں بحق ہوگئے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بہتر زندگی کے لیے کیا جانے والا یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔

زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں نے زور دیا ہے کہ کس طرح کشتی چلانے والے مصری اسمگلروں نے دیگر مسافروں کے مقابلے میں پاکستانیوں کے ساتھ بدتر سلوک کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے حصے میں رکھا گیا تھا جوکہ بدبودار اور انتہائی بری حالت میں تھا جبکہ ان سے ان کے سفری دستاویزات جیسے پاسپورٹ وغیرہ بھی چھین لیے گئے تھے۔

یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور ییوا جوہانسن کے مطابق بحیرہ روم کے راستے پر سفر کرنے والی تارکین وطن کی کشتیوں میں 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ تارکینِ وطن کی اکثریت کو اس بات کی کم ہی امید ہوتی ہے کہ وہ محفوظ طریقے سے یورپی ممالک تک پہنچنے کے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے جہاں وہ بہتر زندگی کی خواہش میں جانا چاہتے ہیں۔ ییوا جاہانسن کے مطابق ان لوگوں کو ان کی ’موت کی جانب‘ روانہ کردیا جاتا ہے۔

حادثے کے چند دن بعد پیر کو یونانی حکام کی جانب سے دیے گئے اس بیان پر سوالات اٹھ گئے ہیں کہ تاریکینِ وطن افراد کی کشتی اٹلی کی جانب گامزن تھی۔ بی بی سی کی رپورٹ میں قریب سے گزرنے والی کشتیوں کے ٹریکنگ ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تاکہ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی کا مقام معلوم ہوسکے۔

اس رپورٹ میں سامنے آیا کہ یونانی حکام کا یہ بیانیہ غلط ہوسکتا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز نے کشتی کی مدد اس لیے نہیں کی کیونکہ یہ اٹلی کے راستے پر موجود تھی۔ درحقیقت کشتی کئی گھنٹوں سے انجن خرابی کے باعث یونانی ساحل کے قریب رکی ہوئی تھی اس لیے یونانی کوسٹ گارڈز کے پاس کشتی کی مدد کرنے کے لیے بہت وقت تھا۔ تو کیا کشتی کی حتمی منزل یونان تھی؟

حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ یونان، اٹلی یا دیگر یورپی ممالک کی جانب سے حادثات کے بعد تارکینِ وطن کے ریسکیو میں ناکامی عام ہوتی جارہی ہے۔ بار بار ایسے اندوہناک واقعات ہمارے سامنے آرہے ہیں جن میں تارکینِ وطن بہتر زندگی کی خواہش میں خطرات مول لے کر یورپی ممالک جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس خیال پر ہی سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ یورپ کے بہت سے ممالک کی معیشتیں خود مشکلات کا شکار ہیں۔

مثال کے طور پر یونان اور اٹلی دونوں ممالک میں کورونا کے بعد سے بےروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے معیشتیں زوال کی جانب جارہی ہیں۔ اس کشتی حادثے کے معاملے میں مبینہ طور پر کشتی چلانے والے 9 مصری اسمگلرز کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ یونانی یا اطالوی کوسٹ گارڈز جیسے ادارے حسبِ معمول احتساب سے بچ گئے ہیں حالانکہ اقوامِ متحدہ نے بھی تارکینِ وطن کی کشتی بچانے کی کوششوں کو مایوس کُن قرار دیا ہے۔

پاکستان میں لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ یورپی ممالک میں ان کے لیے حقیقی مواقع کون سے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک جو مقامی افرادی قوت پر منتقل ہونے کی کوشش کررہے ہیں، ان ممالک میں ملازمت کے مواقع میں بتدریج کمی کے باعث زیادہ تر پاکستانی ان کشتیوں کے ذریعے غیرقانونی سفر کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایک معلوماتی مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو نہ صرف ان کشتیوں پر سفر کرنے کے خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا جاسکے بلکہ یورپ پہنچنے پر جو زندگی ان کی منتظر ہوگی اس حوالے سے بھی خبردار کیا جائے۔

یورپی ممالک کا سفر کرکے آنے والا کوئی بھی شخص اس بات کی تصدیق کرسکتا ہے کہ جو مہاجرین وہاں پہنچ جاتے ہیں، وہ یا تو خوفناک حالات میں گندے پناہ گزین کیمپوں (جیسے اطالوی جزیرہ لامپیدوسا) میں زندگی گزارتے ہیں یا پھر انہیں سیاحتی مقامات پر ہانپتے کانپتے سڑک کنارے زیورات بیچتے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک تک پہنچنے کے خطرات، مواقع کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت اور گھر سے کام کرنے کی وجہ سے افرادی قوت میں کمی آئی ہے، یورپی ممالک، برطانیہ اور امریکا جیسی ترقی یافتہ صنعتی جمہوریتیں بھی زوال کی جانب جارہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ان تمام ممالک میں کم ہنرمند سیکٹر میں روزگار کا بحران پیدا ہونے والا ہے۔

پہلے ہی اسٹورز نے کیشیئر اور شیلف میں سامان رکھنے والوں کی خدمات حاصل کرنا بند کردی ہیں کیونکہ یہ تمام کام خودکار ہوچکے ہیں۔ جلد ہی ایسی نوکریاں جن کے لیے مقامی معلومات کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے کمپیوٹر پروگرامنگ، ڈیٹا سائنسز وغیرہ، ان ممالک میں بھی آجائیں گی جہاں یہ خدمات کم قیمت پر فراہم کی جاسکتی تھیں۔

ترقی یافتہ ممالک کو اس بات کا علم ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ بڑی تعداد میں کم ہنرمند افراد بےروزگار ہونے والے ہیں۔ اس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ کسی قسم کے فوائد جیسے بنیادی آمدنی کا آغاز کیا جائے تاکہ ان ممالک میں غریب عوام کا گزر بسر ممکن ہوسکے۔

مستقبل کی ممکنہ صورتحال یورپ کو پریشان کررہی ہے کیونکہ اتنی بڑی آبادی کو آمدنی کے ذرائع مہیا کرنا ان کے لیے انتہائی مشکل ہے۔ ثقافتی قوتیں، جیسے بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور زینوفوبیا، ان پابندی والی پالیسیوں کی حمایت کرتی ہیں۔

دنیا بھر کے ممالک کو لیبر فورس فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت سے پاکستان اور اس کی عوام کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں ایسی مربوط پالیسی بنانی چاہیے جو لوگوں کو اس طرح کے خطرناک سفر سے روکے۔ ملازمت کے رجحانات کو تسلیم کرتے ہوئے ایسی لیبر پالیسی تیار کی جائے جس سے درمیانے اور اعلیٰ درجے کی ملازمتیں پیدا ہوں اور گھر بیٹھے کام کرنے کے مواقع پاکستانیوں کو بھی مل سکیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کشتی حادثے کو عالمی سطح پر اٹھانا ایک اچھا قدم ہے۔ پاکستان کا اگلا وزیراعظم جو بھی بنے اسے لیبر ایکسپورٹر کے طور پر پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ایسی پالیسی بنانی ہوگی جو اس بات پر روشنی ڈالے کہ کیسے دنیا خصوصاً یورپ، پاکستانیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کررہے ہیں جیسے پاکستانی ہمدردی کے لائق ہی نہ ہوں۔

کشتی ڈوبنے کے واقعات اس امر کو بےنقاب کرتے ہیں کہ کیسے نسل پرستی اور زینوفوبیا ان لوگوں کی جان لے رہا ہے جن کی واحد بدقسمتی یہ ہے کہ وہ کسی مغربی ملک میں پیدا نہیں ہوئے۔


یہ مضمون 21 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں