اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیادہ تر ججز کی جانب سے ’مداخلت‘ کے معاملے کو عوامی سطح پر اٹھانے کے باوجود ہائی کورٹ کے ججوں کو عدالتی معاملات میں بیرونی مداخلت کو ختم کرنے کے طریقوں پر ایک ’متفقہ تجویز‘ پیش کرنے میں تقریباً ایک مہینہ لگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے ججز کے عزم کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں، تاہم ججوں کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز میں نئی پالیسیاں یا اقدامات شامل نہیں بجائے اس کے کہ ان قوانین پر انحصار کیا جائے جو پہلے سے رائج ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے لکھے گئے ایک خط پر تجویز ماتحت عدالتوں کے لیے تعزیری نتائج متعارف کرواتی ہے اگر وہ اپنے معائنہ کرنے والے ججوں کو بیرونی اثر و رسوخ کے بارے میں بتانے میں ناکام رہتے ہیں تو، لیکن اس تجویز میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے لیے ایسے کوئی اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔

ہائی کورٹ کے تمام 8 ججوں کی جانب سے دستخط شدہ 4 نکاتی قرارداد تجویز کرتی ہے کہ اگر کوئی ہائی کورٹ کے کسی جج سے رجوع کرتا ہے، تو وہ 7 دنوں کے اندر تحریری طور پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس واقعہ کی اطلاع دیں گے۔

دارالحکومت کی ضلعی عدالتوں کے ججوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ7 دن کے اندر اندر ایسے معاملات کی رپورٹ ججوں کو معائنہ کرنے کے لیے دیں، اگر ضلعی عدالت کے جج رپورٹ نہیں کرتے تو ان پر بدانتظامی کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور وہ تادیبی کارروائی کے لیے بھی ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔

ہائی کورٹ کے ججوں نے مداخلت کی کسی بھی کوشش پر ایک ادارہ جاتی ردعمل بھی تجویز کیا ہے، جس کے تحت کسی نجی فرد کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی جا سکتی ہے یا اگر وہ کسی سرکاری محکمے سے منسلک ہیں تو انتظامیہ اس معاملے کو اس کے متعلقہ محکمہ کے سامنے اٹھائے گی۔

مزید برآں، قرارداد میں تجویز دی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 204، جو توہین عدالت سے متعلق ہے، کے تحت ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے جو عدالتی معاملات میں مداخلت کی کوشش کریں گے، جب کہ ایسی کسی بھی صورت حال کو ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی دیکھے گی۔

یہ کمیٹی عام طور پر ہائی کورٹ کے کام کاج کے حوالے سے اہم پالیسی فیصلوں سے نمٹتی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کی تشکیل نو کی جاتی ہے، اسے آخری بار نومبر 2022 میں دوبارہ تشکیل دیا گیا تھا۔

اسلام آباد کی عدلیہ کے ایک جج نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تجویز نے ماتحت عدالتوں کے کام کرنے کی ناگفتہ بہ حالت کو نظر انداز کیا ہے، جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے سے کچھ ترقیاں رکی ہوئی ہیں۔

ان کے مطابق ماتحت عدالتوں کے ججوں کو سزائیں دینے کا فیصلہ ان کے حوصلے مزید پست کرے گا۔

موجودہ فریم ورک

سینئر وکیل احسن الدین شیخ نے ڈان کو بتایا کہ یوں تو ججز نے عدالتی معاملات میں مداخلت کا ایک بہت سنگین مسئلہ اٹھایا ہے، تاہم ان کے خیال میں یہ ردعمل معاملے کی سنگینی سے میل کھاتا دکھائی نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تجویز میں متعلقہ قوانین میں پہلے سے فراہم کردہ عوامل شامل ہیں، تاہم اس تجویز میں مداخلت میں ملوث افراد اور اداروں کا سراغ لگانے کے لیے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ اس معاملے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جا سکے۔

انہوں نے خفیہ ایجنسی کے چند افراد کا نام لینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے دعوے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بہتر ہوتا اگر سپریم کورٹ کو بھیجی گئی تجویز میں ان کے انکشافات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی شامل کیا جاتا، جو بالآخر شوکت صدیقی کو ان کی ملازمت سے برطرف کرنے کا باعث بنی۔

ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط میں جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کروانے کے لیے ایک انکوائری کروانے کا تذکرہ موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں