امریکی قائم مقام انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور جان باس پیر کو 2 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچیں گے جس کا مقصد دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ علاقائی سلامتی کے مفادات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد اسلام آباد کا دورہ کرنے والے پہلے سینئر امریکی اہلکار ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں انڈر سیکرٹری جان باس کے ایجنڈے کے بارے میں بتایا جس میں سینئر پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتیں شامل ہیں تاکہ امریکا پاکستان شراکت داری فریم ورک کے تحت علاقائی اور دوطرفہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔

اسلام آباد جانے سے پہلے جان باس نے قطر کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قطری حکومت کے سینئر حکام اور دیگر سفارتی مشنز کے نمائندوں کے ساتھ افغانستان اور خطے میں باہمی سلامتی کے خدشات پر غور و خوض کیا۔

واضح رہے کہ قطر نے دوحہ مذاکرات کی میزبانی کی تھی جو امریکا اور طالبان کے درمیان 2020 کے معاہدے پر اختتام پذیر ہوا اور افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا باعث بنا تھا۔

جان باس اس سے قبل 2017 سے 2020 تک افغانستان میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، یہ ایک اہم دور تھا جس دوران طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔

وہ 2014 سے 2017 تک ترکیہ میں امریکی سفیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

محکمہ خارجہ میں سیاسی شعبے کے سربراہ کے طور پر جان باس انسانی حقوق پر خاص توجہ رکھنے کے ساتھ، اتحادی ریاستوں کی سیاسی حرکیات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

پچھلے ہفتے ہی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انسانی حقوق کی اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی، جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ بھی شامل تھا۔

رپورٹ میں لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے سلسلے میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور اراکین کے خلاف قانونی کارروائی جیسے اہم واقعات پر روشنی ڈالی گئی۔

رپورٹ میں میڈیا سنسرشپ اور خاص طور پر پی ٹی آئی کے بانی اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی سیاسی گرفتاریوں کی مثالوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔

حالیہ کشیدگی کے باوجود، محکمہ خارجہ کے ترجمان نے صحافیوں کو یقین دلایا کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان بنیادی اختلاف بالکل نہیں ہے۔

ایک علاقائی پارٹنر کے طور پر پاکستان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ترجمان نے سلامتی اور تجارتی شعبوں میں جاری تعاون کو اجاگر کیا۔

امریکی قائم مقام انڈر سیکریٹری کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان جاری سفارتی بات چیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان کا یہ دورہ ایک اہم سفارتی تصادم کے دوران دیکھنے میں آیا ہے جب حال ہی میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کے تین شہروں کا دورہ کیا۔

اس دورے کے دوران، دونوں ممالک نے اپنے تجارتی تعلقات کو 2 ارب ڈالر سے بڑھا کر 10ارب ڈالر سالانہ کرنے کے مشترکہ عزائم کا اظہار کیا۔

اس پیش رفت کے جواب میں، امریکا نے ایک احتیاطی بیان جاری کیا جس میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافے سے ممکنہ طور پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں