زیادہ بچے پیدا کرنے کے سوال پر بہت سے لوگ اچھل کر کہتے ہیں، کیوں نہ کریں زیادہ بچے پیدا؟ گھر میں زیادہ بچے اچھے لگتے ہیں, رونق رہتی ہے، ہمیں زیادہ بچے پیدا کرنا پسند تھا وغیرہ وغیرہ۔

کچھ کا بس نہیں چلتا کہ ہمارا منہ نوچ لیں۔ کچھ تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ کیا مزہ زندگی کا؟ کیوں بچے کم پیدا کریں؟ کچھ بھی نہیں ہوتا؟ ہمیں نہ حمل کا پتا چلا نہ زچگی کا، آپ نہ جانے کیوں ڈراتی رہتی ہیں؟

ہم چپ رہتے ہیں اور ہنس دیتے ہیں، پردہ بھی تو رکھنا ہے۔

شاید درست بھی کہتی ہیں وہ خواتین کیونکہ زیادہ تر کو جوانی میں کچھ پتا نہیں چلتا۔ گھر میں دائی کے ہاتھوں بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ لوٹ پوٹ کر اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔

سماجی مسائل کو ابھی ہم نہیں چھیڑ رہے۔ ابھی بات ہوگی خواتین کی صحت سے متعلق۔۔۔ حمل اور زچگی کے وہ اثرات جو جوانی میں نہ کسی کو محسوس ہوتے ہیں اور نہ ہی نظر آتے ہیں۔

حمل کا سب سے بڑا شکار بچہ دانی اور پیٹ ہیں۔ بار بار پھولتا اور پچکتا پیٹ اور بچہ دانی۔ بڑھا ہوا پیٹ تو فوراً یہ کہہ کر قبول کرلیا جاتا ہے کہ کیا کریں؟ پیٹ تو بڑھ ہی جاتا ہے اتنے بچوں کے بعد۔

لیکن یہی بڑھا ہوا پیٹ اور موٹاپا، شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کی جڑ ہے جن میں تقریباً ہر عورت 40 سال کی عمر کے بعد مبتلا نظر آتی ہے۔ دواؤں کا ڈھیر پھانک کر زندگی گزارنا نہ جانے کیسے نارمل سمجھا جاتا ہے۔

حمل کے نتیجے میں پھیلتی اور سکڑتی بچہ دانی وقت کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوجاتی ہے جس کی بناوٹ میں استعمال ہوئے زیادہ تر فائبرز شکستہ نظر آتے ہیں۔ نہ صرف حمل بلکہ اسقاط بھی بچہ دانی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

بہت سے حمل ہوجانے کے بعد جوانی میں بھی خطرہ رہتا ہے کہ بچہ دانی ویجائنا کے راستے کھسکتی ہوئی باہر کو نہ لٹک جائے۔ اگر ایسا ہو بھی تو پوری بچہ دانی تو باہر نہیں آتی لیکن اس کا ایک حصہ ویجائنا میں محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

50 سال کی عمر کے بعد جونہی ہارمونز ختم ہوئے، پہلے سے ڈھیلی پڑی بچہ دانی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ پاتی۔ شروع میں بچہ دانی ویجائنا کے راستے باہر کو کھسکنا شروع ہوتی ہے۔ پھر نتیجتاً ویجائنا میں ہر وقت بوجھ کا احساس ہوتا ہے اور پھر کچھ موجود ہونے کی عام شکایت ہوتی ہے۔ جلد ہی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے اور پوری کی پوری بچہ دانی ویجائنا سے باہر لٹک جاتی ہے۔ ٹانگوں کے بیچ ٹینس کی گیند جیسی لٹکی ہوئی بچے دانی کی اذیت شاید ہی کوئی محسوس کر سکتا ہو۔ مسلسل رگڑ کی وجہ سے بچے دانی پر زخم بن جاتے ہیں جس سے خون رستا رہتا ہے۔

پیٹ کے نچلے حصے میں بچہ دانی، مثانہ اور مقعد تینوں آگے پیچھے پائے جاتے ہیں۔ اگر بچہ دانی اپنی جگہ پر قائم نہ رہے اور باہر کو لٹک جائے تب مثانہ اور مقعد کیسے اپنی جگہ پر قائم رہ سکتے ہیں؟ مثانہ اور مقعد بھی اپنی جگہ سے کھسکتے ہوئے ویجائنا کے راستے باہر آ جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پیشاب اور پاخانے کا اخراج انتہائی مشکل بن جاتا ہے۔ زیادہ تر ہاتھ سے دبا کر فراغت حاصل کی جاتی ہے۔

یقین کریں بے شمار عورتیں شرم کی وجہ سے کسی کو کچھ بتا نہیں پاتیں اور بچہ دانی کی اذیت جھیل کر بقیہ زندگی گزارتی ہیں۔ 60 سے 70 سال کی خواتین سے کبھی پوچھ کر دیکھیے گا کہ کیا کچھ ہے جس کی پردہ داری ہے۔

بچہ دانی، مثانہ اور مقعد کے باہر لٹک آنے سے بہت پہلے پیشاب پاخانے اور ہوا پر کنٹرول خراب ہونا شروع ہوتا ہے۔ ویجائنا کی پوزیشن ایسی ہے کہ مثانہ آگے ہوتا ہے اور مقعد پیچھے۔ زچگی کے دوران ویجائنا میں موجود بچے کا سر مثانے اور مقعد پر پریشر ڈالتا ہے۔ بعض اوقات دو گھنٹے، کبھی تین گھنٹے، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب زچہ زور لگا کر بچے کو باہر کی طرف دھکیلتی ہے۔ بچہ دانی پر بے تحاشا زور اور بچے کے سر کا مقعد اور مثانے پر مسلسل پریشر۔۔۔ اس کا نتیجہ شاید آپ کو ابھی پتا نہ چلے لیکن ادھیڑ عمری میں جب پیشاب، پاخانے اور ہوا پر قابو نہ رہے تب خاتون سمجھ نہیں پاتی کہ اس کے ساتھ یہ ہوا کیا؟

غسل خانے جاتے ہوئے پیشاب نکل جانا، چھینک مارتے ہوئے پیشاب کے قطرے خارج ہو جانا، ہوا پر کنٹرول نہ ہونا، پاخانہ لیک ہو جانا۔۔۔ ان تمام مسائل کو ادھیڑ عمری کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ خراج ہے زچگی کے عمل کا۔

گاؤں دیہات میں کسی مشکل کی وجہ سے اگر زچگی معمول سے زیادہ وقت لے تو نتیجہ فسٹولا کی صورت میں نکلتا ہے۔ فسٹولا ایک سوراخ ہے جو مثانے اور ویجائنا یا ویجائنا اور مقعد کے درمیان بنتا ہے۔ وجہ ویجائنا میں موجود بچے کے سر کا پریشر ہے جو مثانے اور مقعد کو گل جانے پر مجبور کرتا ہے۔ مثانے میں بنے اس سوراخ سے ہر وقت پیشاب ویجائنا کے راستے باہر کو رستا رہتا ہے اور یہی حساب پاخانے کا بھی ہوتا ہے جو مقعد میں بنے سوراخ کے ذریعے ویجائنا کے راستے باہر آتا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ ان امراض سے متعلق آگہی اس لیے بھی بہت کم ہے کیونکہ مرد زچگی اور حمل سے نہیں گزرتا اس لیے اسے ان مسائل کا ادراک نہیں۔ جان لیجیے کہ ہر حمل اور زچگی عورت کے جسم سے اپنا ٹیکس وصول کرتے ہیں۔

پیاری خواتین! زندگی کے اس سفر میں یہ جسم آپ کی سواری ہے۔ یہی سواری آپ کے سفر کو آرام دہ بنائے گی اور مشکل بھی۔ اس سواری کا تیل پانی چیک کرنا، اسے کسی بھی حادثے یا کڑی دھوپ اور آندھی طوفان سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ سو اگر آپ نے زندگی ڈاکٹروں کے سہارے نہیں گزارنی تو اپنے جسم کو بچے پیدا کرنے کی فیکٹری مت بنائیے۔

اس مضمون میں ہم نے زچگی کے بعد زندہ رہ جانے والی خواتین کی مشکلات کا ذکر کیا ہے۔ حمل اور زچگی ایک ایسی رہ گزر ہے جس میں زندگی کے ساتھ ساتھ موت چلتی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے خود بچوں کے ساتھ کیا حق تلفی ہوتی ہے اس کا ذکر  پھر کبھی کروں گی۔

تبصرے (0) بند ہیں