رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل ہیں اور دستوری قانون اور سیاسی فلسفہ پڑھاتی ہیں۔

اگر دولت زیادہ ہو تو اس کے فائدے بھی خوب ہوتے ہیں۔ امریکا کے معاملے میں یہ فائدہ زندوں اور قریب المرگ افراد کے درمیان فاصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔ جب وہاں بڑی عمر کے لوگ بسترِ مرگ پر پہنچ جاتے ہیں تو انہیں نرسنگ ہومز میں داخل کردیا جاتا ہے جہاں عملہ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ان کے گھر والے چند دنوں میں انہیں دیکھنے آتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر مواقع پر یہ لوگ جنہیں ان کے اپنے بھلا دیتے ہیں، نرسنگ ہومز میں اجنبیوں کے گرد اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

امریکی شہریوں کے لیے دستیاب جدید طبی سہولیات کا مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک علاج جاری رہتا ہے چاہے اس کا فائدہ نہ بھی ہورہا ہو۔

کچھ سال پہلے تک امریکا میں یہی ریت عام تھی لیکن پھر ’ہوسپائس‘ سروس کا آغاز ہوا۔ اس کی سہولیات، طبی مراکز اور گھروں دونوں میں فراہم کی جاتی ہیں۔ علاج معالجے کے اداروں کی توجہ کینسر اور اس طرح کی بیماریوں کا علاج کرنے پر مرکوز ہوتی ہے لیکن ہوسپائس کی توجہ مریض کے آرام پر مرکوز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کا علاج کرنے کے بجائے ہوسپائس صرف قریب المرگ شخص کے آرام و سکون اور انہیں درد سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

ہوسپائس ورکرز جوکہ رجسٹرڈ نرسز ہوتے ہیں، وہ قریب المرگ لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ حال ہی میں ہوسپائس نرسنگ سے وابستہ 30 سالہ نرس ہاڈلی ولاہوس نے اپنی ایک کتاب شائع کی ہے جس میں انہوں نے ان چیزوں کا ذکر کیا ہے جوکہ قریب المرگ شخص انہیں بتاتے ہیں یا یہ کہ مرتے وقت ان لوگوں کو کیا محسوس ہوتا ہے۔

اپنی بیسٹ سیلنگ کتاب ’دی ان بٹوین: اَن فورگیٹیبل انکاؤنٹرز ڈیورنگ لائفس فائنل مومنٹس‘ میں وہ ان مریضوں کی کہانی تحریر کرتی ہیں جن کی زندگی کے آخری لمحات کو انہوں نے قریب سے دیکھا تھا۔ ہاڈلی ولاہوس کے مطابق وہ مظاہر جو انہوں نے دیکھے ان میں مریض کے مذہبی عقائد کے حوالے سے کوئی تخصیص نہیں تھی، حتیٰ کہ ان میں سے کچھ مریض تو کسی مذہبی عقیدے کو مانتے ہی نہیں تھے۔

ہاڈلی ولاہوس کے مطابق تقریباً تمام لوگوں کو مرنے سے قبل اپنے انتقال کرجانے والے یا رشتہ دار نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ اس سے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں اپنے مردہ رشتہ دار بالکل ایسے ہی نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ زندہ ہوں۔ تو ہوسپائس ورکرز کے لیے قریب المرگ افراد کی جانب سے اپنے آخری لمحات میں انتقال کرجانے والے رشتہ داروں سے تعارف کروایا جانا عام سی بات بن چکی ہے۔

کچھ کے نزدیک ان پیاروں کی موجودگی سے بسترِ مرگ پر موجود شخص کا دنیا چھوڑنے کا مرحلہ آسان ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ شخص اس جہان اور دوسرے جہان کے درمیان ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سوال کریں گے کہ کیا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مرنے کے بعد ہمارا دماغ چلتا رہتا ہے۔ اکثر اوقات قریب المرگ افراد کو اپنے انتقال کرجانے والے رشتہ دار جوان اور اچھی حالت میں نظر آتے ہیں حالانکہ مرتے وقت وہ کافی بوڑھے ہوتے ہیں۔

مصنفہ ایک واقعہ بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ وہ اپنی شفٹ کے لیے اس شخص کے گھر جارہی تھیں جس کی وہ گزشتہ 8 ماہ سے دیکھ بھال کررہی تھیں۔ جب وہ وہاں پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ وہ مریض اپنے بستر سے اُٹھ کر ہاتھ میں ٹارچ لیے کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ مصنفہ کافی حیران ہوئیں کیونکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ مریض میں چلنے پھرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے مریض کی اہلیہ سے دریافت کرنا چاہا کہ کیا ہورہا ہے، اس کی اہلیہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ ہاڈلی ولاہوس نے مریض سے پوچھا کہ وہ کیا ڈھونڈ رہے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ وہ اینا کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ سن کر ان کی اہلیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پتا چلا کہ جوڑے کی 2 سالہ بیٹی جس کا نام اینا تھا، اس کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس مریض کو نہ صرف یہ یقین تھا کہ وہ اینا کو دیکھ رہا ہے بلکہ وہ خود کو توانا بھی محسوس کررہا تھا۔

وہ اپنے تجربات کی بنیاد پر بتاتی ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے آخری لمحات میں خود کو کافی توانا محسوس کرتے ہیں۔ ڈیمینشیا یا الزائمر کے مریض بھی ایسے لمحات سے گزرتے ہیں جہاں وہ اپنے پیاروں سے بات کرتے ہیں اور ان لوگوں کو پہچان لیتے ہیں جنہیں وہ سالوں تک پہچان نہیں پاتے تھے۔ ان میں سے کچھ تو برسوں بستر پر گزارنے کے بعد چلنے لگتے ہیں یا کچھ جو مہینوں سے خاموش تھے وہ بھی بات چیت کرتے لگتے ہیں۔ مزید یہ کہ بہت سے قریب المرگ لوگ یہ بھی بتانے لگتے ہیں کہ ان کی موت کب آئے گی۔ یوں خراب صحت کے باوجود وہ زندگی سے جڑے رہتے ہیں جیسے کہ وہ اپنے پیاروں کے انتظار میں ہوں کہ وہ آئیں اور انہیں الوداع کہیں۔

مسلمانوں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ انتقال کرجانے والے شخص کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں شرکت کی جائے تاکہ اس کو بھلایا نہ جاسکے۔ اس سے موت کے ساتھ قربت پیدا ہوتی ہے جس کا مقصد نہ صرف عارضی زندگی اور اس کے فانی ہونے کو محسوس کرنا ہے بلکہ یوں سوگوار خاندان کے افراد کے لیے احساسِ ہمدردی بھی پیدا ہوتا ہے۔

کچھ سال پہلے ہونے والی ایک تحقیق میں یہ پتا لگایا گیا کہ مرنے والوں کو کس بات کا پچھتاوا ہوتا ہے۔ اس میں یہ سامنے آیا کہ ان میں سے زیادہ تر کو اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیاروں بالخصوص بچوں کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے۔ انہوں نے زیادہ کام کرنے پر بھی پچھتاوے کا اظہار کیا کیونکہ یوں وہ کئی اہم مواقع پر شرکت نہیں کرپائے۔ مرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کو یہ پچھتاوا بھی تھا کہ کاش انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا زیادہ وقت اس فکر میں نہ گزارا ہوتا کہ دوسرے لوگ کیا سوچیں گے۔

پاکستان میں مرنے والے لوگوں کے تجربات کا امریکیوں کے تجربات سے موازنا کرنا کافی دلچسپ ہوگا۔ میں نے یہ تو دیکھا ہے کہ مریض اپنے انتقال کرجانے والے رشتہ داروں سے بات کررہے ہیں لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا بسترِ مرگ پر موجود شخص میں خاص قسم کی توانائی آجائے اور وہ چلنے پھرنے لگے۔ درحقیقت بہت سے لوگ اپنے انتقال کرجانے والے پیاروں کی موجودگی میں خود کو پُرسکون محسوس کرتے ہیں، تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ یاددہانی ہے کہ موت میں بھی ایسے لمحات ہیں جن کا انسان منتظر رہتا ہے۔


یہ مضمون 13 ستمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں