لکھاری ماحولیاتی تبدیلی اور ترقی سے جڑے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔
لکھاری ماحولیاتی تبدیلی اور ترقی سے جڑے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔

سیاسی نظام کی خرابی نے ہمارے ملک کو اصلاحات کا سخت مخالف بنادیا ہے۔ سب متفق ہیں کہ نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن مفاد پرست گروپ تبدیلی کے کسی بھی اقدام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ نتیجتاً ماضی میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے تبدیلی لانے والے اقدامات سے گریز کیا۔

اسلام آباد اور صوبوں میں نئی حکومتوں کی تشکیل نے، ملک کو موسمیاتی تبدیلی کی مربوط، تیز اور فیصلہ کُن ادارہ جاتی اصلاحات کا وہ موقع فراہم کیا ہے جس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ یہ اصلاحات ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

درحقیقت ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلی، مضبوط گورننس اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے آئی ایم ایف کی سخت مالیاتی پالیسیز اور ساختی اصلاحات پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ اگرچہ یہ اصلاحات ضروری اور ناگزیر دونوں ہیں لیکن یہ ان ساختی اصلاحات کا متبادل نہیں جن میں ایک ایسی ترقی پر سب کا اتفاق ہو جو جامع ہو، جس میں کاربن کا اخراج کم ہو اور ماحول دوست ہو۔

حکومت کا اپنے ابتدائی 100 دنوں کے اہداف کا اعلان کرنا، صدارتی اور پارلیمانی دونوں طرزِ حکومت میں عام ہے۔ یہ 100 دن قائدین کو اپنے دورِ اقتدار کے لیے طرزِ حکومت مرتب کرنے، قومی اور بین الاقوامی ساکھ بنانے، ترجیحات طے کرنے اور مستقبل کے اقدامات کے لیے ایک روڈ میپ بنانے کا اہم موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس روایت کا مقصد قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہے تاکہ اتفاقِ رائے اور امید پیدا کی جا سکے۔ یہ ابتدائی فیصلے انہیں اپنی انتخابی جیت کو ثابت کرنے، ترجیحات طے کرنے، فوری کامیابی کو یقینی بنانے، اپنے اتحاد کو مضبوط کرنے اور اپنے منصوبوں کے لیے عوامی حمایت پیدا کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

’ابتدائی 100 دن‘ کا تصور امریکا میں فرینکلن ڈی روزیلٹ کے دورِ صدارت میں اس وقت سامنے آیا جب ان کی حکومت کو خراب مالیاتی نظام کو ٹھیک کرنا تھا۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مختصر عرصے میں اہم تبدیلیوں کے لیے اقدامات کیے جن میں ’نیو ڈیل‘ بھی شامل تھی جس کی مدد سے انہوں نے اپنے ملک کو معاشی بدحالی سے نکالا۔ اس وقت سے امریکی صدارتی نظام میں نئی حکومت کے ابتدائی 100 دن مخصوص اہداف کے تعین میں اہمیت اختیار کرگئے۔ اس تصور نے بعد میں آنے والے متعدد صدور کو اپنی ترجیحات بنانے میں مدد کی۔ امریکی صدور اب زیادہ تر اپنے ایجنڈے کو ترتیب دینے، کانگریس کی قانون سازی اور طاقت کی سیاست پر اثرانداز ہونے کے لیے ایگزیکٹو آرڈرز کا استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت میں عام طور پر نومنتخب وزیراعظم، امریکی ہم منصب کی طرح مخصوص اہداف مقرر کرنے کے بجائے، پالیسی کی سمت متعین کرنے کے لیے پہلے 100 دن استعمال کرتے ہیں۔ کابینہ کے اراکین اپنی شعبہ جاتی پالیسیز اور ترجیحات کا اعلان کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ ابتدائی 100 دنوں کو اپنی سیاست اور سیاسی نظریاتی صف بندی کے لیے فالٹ لائنز کھینچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان کے ہائبرڈ نظام میں ابتدائی 100 دنوں کے اہداف قائدین کی ترجیحات پر منحصر ہوسکتے ہیں۔ عمران خان پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے ابتدائی 100 دنوں میں مؤثر اہداف پورے کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ عمران خان کی ناکامی کی مختلف وجوہات تھیں۔ ایک بے ترتیب ایجنڈا، متضاد پیغامات، ان کی کابینہ میں فیصلہ سازی اور ہم آہنگی کا فقدان اور خراب سیاسی و معاشی گورننس کی وجہ سے عمل درآمد میں مشکلات پیش آئیں۔

عمران خان کے ابتدائی 100 روزہ ایجنڈے اور تجربے سے موجودہ سیاسی رہنما متعدد اسباق حاصل کرسکتے ہیں۔ عمران خان کا اہم ترین اقدام صحت کارڈ کا اعلان تھا جو غریب عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہا لیکن وہ صحت کارڈ پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے مخالفین یعنی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو اس پروگرام میں خامیاں نظر آئیں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح ان خامیوں کو دور کرکے پروگرام کو جاری رکھنے کے بجائے انہوں نے صحت کارڈ پروگرام کو ہی بند کردیا۔

اگر بھارت سے موازنہ کیا جائے تو تجزیات بتاتے ہیں کہ نریندر مودی نے بطور وزیراعظم اپنے ابتدائی 100 دنوں میں معاشی پالیسی، خارجہ پالیسی اور سماجی بہبود سے متعلق محتاط مگر جرات مندانہ اقدامات لیے۔ پاکستانی قائدین کے برعکس، انہوں نے گورننس کے لیے باقاعدہ حکمتِ عملی اپنائی۔ ان کی اقتصادی حکمت عملی کے 3 بنیادی عناصر تھے۔ پہلا کان کنی اور پیداوار کا آغاز کرنا، دوسرا منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کرکے پروجیکٹس کی منظوری میں تیزی لانا جبکہ تیسرا عنصر جن دھن یوجنا اسکیم تھی۔ جن دھن یوجنا کا مقصد بینکنگ، ترسیلات زر، کریڈٹ، انشورنس اور پینشن جیسی مالی خدمات تک رسائی کو یقینی بنانا تھا۔

نریندر مودی کی جانب سے مالیاتی خدمات تک سستی رسائی میں، صفر بیلنس کے ساتھ بینک اکاؤنٹس کھولنا، بِلٹ ان ایکسیڈنٹ انشورنس کے ساتھ ڈیبٹ کارڈ فراہم کرنا، آدھار سے منسلک (جو بھارتی شناختی کارڈ کے برابر ہے) اکاؤنٹس کے لیے اوور ڈرافٹ کی سہولت اور صارفین کو لائف انشورنس کور فراہم کرنا شامل ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 51 کروڑ 80 لاکھ لوگ اس سے مستفید ہوئے جوکہ پاکستان کی مجموعی آبادی سے دو گنا زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے بینیفیشری اکاؤنٹس کی مد میں کئی ارب بھارتی روپے حاصل کیے۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح 100 دنوں کا ایجنڈا مالیاتی حالات کو بہتر، اور شہری و دیہی علاقوں کے ان مردوں اور عورتوں کو بااختیار بنا سکتا ہے جو پہلے مرکزی دھارے کے مالیاتی نظام میں شامل نہیں تھے۔ مالیاتی رسائی اور اثاثوں کی تشکیل سے زیادہ کوئی بھی چیز عوام کو غربت اور ماحولیاتی خطرات سے نہیں نکالتی اور ان کی معاشی پیداواری صلاحیت میں اضافہ نہیں کرتی۔ ہم نے اسے پاکستان میں دیہی سپورٹ منصوبوں جیسے کشف، اخوت اور دیگر کی شکل میں دیکھا ہے۔

100 دنوں کی اس بساط نے نریندر مودی کو مستحکم کیا کیونکہ ان اصلاحات نے ان کی پہلی حکومتی مدت کے اختتام پر مؤثر انداز میں کام شروع کیا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان میں نئی حکومت کو مخلوط حکمرانی کی پیچیدگیوں، معاشی پابندیوں، مالی بحران اور سماجی ردعمل جیسے لاتعداد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے میں ان کے لیے ابتدائی 100 دنوں کے لیے اہداف طے کرنا، قیادت کا ابتدائی مظاہرہ کرنے کے لیے ایک قابل قدر عمل ہوگا۔ کیا نئی حکومت کسی نئے مخصوص اقدام کے لیے عزم کا اظہار کرسکے گی؟

اقتصادی ترقی کی سُست رفتار، سنگین مالیاتی صورتحال، یکے بعد دیگرے موسمیاتی آفات کا سامنا اور وفاق اور صوبوں کے متعلقہ کرداروں اور ذمہ داریوں سے متعلق ابہام کی وجہ سے اس ضرورت نے زور پکڑ لیا ہے کہ سیاسی ایجنڈے میں ساختی اصلاحات لائی جائیں۔

آخر میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت اور اس سے مقابلے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے اقدامات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ جیسا کہ پہلے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا گیا ہے، ان میں قومی موافقت کے منصوبے کا نفاذ شامل ہے جو چھے شعبوں پر مرکوز ہے، پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کے موجودہ پورٹ فولیو کو قومی ایکشن پلان کے مقاصد کے ساتھ دوبارہ ترتیب دینا، نئے منصوبوں کے لیے لاگت کا تعین کرنا اور پالیسی پلاننگ کی دستاویزات میں ماحولیاتی تحفظات کو بھی شامل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف کی کلائمیٹ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسسمنٹ کے تحت ادارہ جاتی اصلاحات نافذ کرنے کے عزم کا اظہار کرچکا ہے۔

امریکا کی طرح ہمارا ملک بھی ’نیو ڈیل‘ کی امید کررہا ہے، ایسے میں نئے حکمران 100 دنوں کے لیے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر یہ نہیں سمجھ سکتے کہ وہ چھپ گئے ہیں کیونکہ ایسا کرنا سیاسی انتشار کا باعث بنے گا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں