چیف جسٹس کی زیر سربراہی ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور آزاد عدلیہ پر کسی حال میں بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے پر گزشتہ روز شروع ہونے والا فل کورٹ اجلاس آج بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں جاری رہا۔

آج اجلاس تقریباً شام پانچ بجے شروع ہوا جو افطار کے بعد تک جاری رہا جس میں ججز کی جانب سے خط کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آئیں۔

بعدازاں فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھا گیا خط 26 مارچ کو موصول ہوا اور خط میں الزامات کی سنگین کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے اسی روز اپنی رہائش گاہ پر افطار کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججز سے ملاقات کی۔

چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر ہونے والی یہ ملاقات ڈھائی گھنٹے کی تک جاری رہی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انفرادی طور پر تمام ججوں کو سنا۔

اس کے بعد 27 مارچ کو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کے بعد پیونی جج کے ہمراہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور اسلام آباد میں موجود بار ایسوسی ایشن کے سینئر ترین ارکان سے ملاقات کی۔

اس کے بعد چیف جسٹس کی زیر سربراہی 27 مارچ کو شام چار بجے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا گیا جس میں ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط میں اٹھائے گئے مسائل اور بنیادی نکات سے ججوں کو آگاہ کو کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق فل کورٹ کے اکثر اراکین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس خط میں اٹھائے گئے مسائل کے حوالے سے وزیراعظم سے ملاقات کریں جس کے بعد فل کورٹ اجلاس کو ملتوی کردیا گیا۔

وزیراعظم نے 28 مارچ کو وزیراعظم سے دوپہر 2 بجے ملاقات کی جہاں ان کے ہمراہ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے جبکہ چیف جسٹس کے ساتھ سینئر پیونی جج اور رجسٹرار سپریم کورٹ ملاقات کا حصہ تھے۔

اس سلسلے میں بتایا گیا کہ وزیراعظم سے ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ججز کے عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور آزاد عدلیہ پر کسی حال میں بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینئر پیونی جج نے کہا کہ آزاد عدلیہ بنیادی ستون ہے جو قانون کی عملداری اور جمہوریت کی مضبوطی کو یقینی بناتی ہے۔

ملاقات کے دوران معاملے کی تحقیقات کے لیے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ کی زیر سربراہی انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کمیشن کے قیام کی منظوری لینے کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس کیا جائے گا اور چیف جسٹس اور سینئر پیونی جج کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی اور فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کریں گے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا جس میں ججوں کو وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔

ججز کے خط کا معاملہ

واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججوں کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

خط میں لکھا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

اس سارے معاملے کے بعد وفاقی حکومت نے آج معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کرانے کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں