ماہر علی
ماہر علی

4 اپریل 1979ء کی صبح آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔ میں علی الصبح اسکول جانے کے لیے بیدار ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری والدہ کی آنکھیں سرخ ہیں۔ انہوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا مگر میں سمجھ گیا کہ وہ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میری والدہ نے روتی ہوئی آنکھوں سے میرے اس خدشے کی تصدیق کی۔ ایک قابلِ نفرت فوجی حکومت کے ہاتھوں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جاچکی تھی۔

ایسا ہونا مکمل طور پر حیران کُن تو نہیں تھا لیکن ہاں یہ ایک جھٹکا ضرور تھا۔ بہت سے پاکستانیوں کو آخری لمحات تک امید تھی کہ کوئی دوسرا راستہ نکل آئے گا۔ وہ تمام ممالک جن کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات تھے، سب نے معافی کی اپیل کی۔ (یہ قابلِ ذکر ہے کہ انڈونیشیا کے سہارتو کی حکومت ان ممالک میں شامل نہیں تھی۔) مجھے گمان ہے کہ اگر چاہتے تو کم از دو ممالک تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی رکوانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے تھے، ایک امریکا اور دوسرا سعودی عرب۔

لیکن دونوں ممالک نے ایسا نہیں کیا۔ جنرل ضیاالحق نے عالمی ممالک کی اپیلوں کو سیاستدانوں کی بین الاقوامی یونین کی جانب سے ایک اقدام سمجھ کر مسترد کردیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’ڈوٹرز آف ایسٹ‘ میں نوٹ کیا کہ سپریم کورٹ جس نے لاہور ہائی کورٹ کے سزائے موت کے حکم کو 3-4 سے برقرار رکھا تھا، اس نے بھی متفقہ طور پر سزا تبدیل کرنے کی سفارش کی تھی۔ لیکن ضیاالحق نے ’مشکل راستہ‘ چننے سے انکار کردیا۔ اس وقت وہ مان چکے تھے کہ کسی ایک کو تو موت کو گلے لگانا ہوگا پھر چاہے وہ خود ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو۔ دوسرا انتخاب آسان نظر آیا اور یوں ان کی زندگی کی ڈور کاٹ دی گئی۔

یہ پاکستان کی وہ 45 سال پرانی وہ عبرتناک تاریخ ہے جس نے حالیہ دنوں ایک نیا موڑ لیا ہے۔ ہم صرف تصور کرسکتے ہیں کہ جولائی 1977ء میں فوج مداخلت نہ کرتی اور ضیاالحق کے مارشل لا سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئے انتخابات پر اتفاق ہوجاتا تو کیا ہوتا۔

اس سے کسی کو انکار نہیں کہ 1971ء سے 1977ء تک ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ایک ناقص جمہوریت رائج تھی۔ البتہ مارشل لا اٹھایا گیا تو اس وقت سامنے آنے والی ابتدائی علامات مثبت تھیں۔ یہاں تک یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ 1972ء وہ سنہرا سال تھا جس میں پاکستان نے دوبارہ جنم لیا۔ یہ حقیقت الگ ہے کہ اس میں پچھلے سال ہونے والے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں ہمارا دایاں بازو کٹ گیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔

1973ء میں بہت سی امیدیں ٹوٹ گئیں خاص طور پر جب نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی بلوچستان اور سرحد کی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ اس وقت تک نہ صرف نیپ کے متعدد لیڈران کو الزامات لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا بلکہ خود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں بائیں بازو کے نظریات کی طرف جھکاؤ رکھنے والے رہنماؤں کو کنارہ کش کردیا گیا، جبکہ ان کی جگہ جاگیردار اور ان وقتی ساتھیوں کو دے دی گئی جو 1977ء میں یا اس کے فوراً بعد پی پی پی کو چھوڑ کر چلے گئے۔

اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو پاکستان کی ترقی کی رفتار کے بارے میں کوئی واضح طور پر نہیں بتاسکتا لیکن یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عوامی حکومت کے تحت ہونے والی واپسی شاید ملک کے لیے کم نقصان دہ ہوتی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ متعصب شخصیت کے مالک ضیاالحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانا ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ لیکن ضیاالحق کے پیشرو جنرل ٹکا خان جنہیں ’بنگال کا قصائی‘ بھی کہا جاتا ہے، انہیں بلوچستان میں آپریشن کا ذمہ دار بنانا اس سے بھی بڑی بھول تھی۔

نیم فوجی ادارے پیرا ملٹری سیکیورٹی فورس کا قیام بھی غلط اقدام تھا جس کا ردعمل ہم نے اس وقت دیکھا جب مسعود محمود کی فرضی گواہی ممکنہ طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے میں کلیدی ثابت ہوئی۔ یہ بیان کسی بھی طور پر سزائے موت دینے کے لیے کافی نہیں لیکن ضیاالحق اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق جنہوں نے پروموشن کی خاطر، اس فرضی بیان کی بنیاد پر ہی بھٹو کو سزائے موت دے دی۔

حالیہ دنوں میں چھ ججز کی جانب سے لگائے گئے مداخلت کے الزامات، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل کی سپریم کورٹ میں ہونے والی پیشرفت کی یاد دلاتے ہیں۔ 1979ء-1978ء میں 9 رکنی بینچ جس سے توقع تھی کہ وہ 4-5 سے بھٹو کے حق میں فیصلہ دے گا اس بینچ کو کسی طرح دھوس دھمکیوں سے 7 ججز تک لایا گیا جس کے بعد توازن تبدیل ہوا اور پھر بھٹو کے خلاف 3-4 سے ججز کا فیصلہ سامنے آیا۔ جو ججز اس کے خلاف تھے انہوں نے تمام تر دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود سزا کی مخالفت میں ہی فیصلہ دیا۔

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے تاخیر سے دیے گئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ بات عوام تو طویل عرصے سے جانتے ہیں لیکن اب عدلیہ بھی اس کی معترف ہے۔ عدالت کے مشکوک فیصلے کو واپس نہیں لیا جاسکتا۔ البتہ انتہائی عجلت میں دی گئی یہ سزائے موت ملکی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی (لیکن انتہائی غیرمنصفانہ) قتل ایسی عمر میں ہوا جو انسان کے لیے سب سے اہم ہوتی ہے۔ وہ اپنی پھانسی کے وقت محض 51 برس کے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے شاہ نواز کا 26 سال کی عمر میں انتقال ہوا، بڑے بیٹے میر مرتضٰی 42 جبکہ ان کی بیٹی محترمہ بےنظیر بھٹو کو 54 برس کی عمر میں قتل کردیا گیا۔

مسلم دنیا کے لیے یہ دھچکا تھا کیونکہ 50 سال قبل 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کرنے والے اسلامی ممالک کے سربراہان میں سے ذوالفقار علی بھٹو وہ تیسرے لیڈر تھے جن کا یوں انتقال ہوا۔ جس سے قبل 1975ء میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل اور بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمٰن قتل ہوچکے تھے۔ بعدازاں 1981ء میں مصر کے انور سادات اور پھر 30 سال بعد 2011ء میں لیبیا کے معمر قذافی کو قتل کیا گیا۔

تاہم بھٹو کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے انتقال کے بعد پاکستانی قوم کی حالت مزید ابتر ہوئی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں