لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

اسرائیل کے ایران پر تاریخی براہِ راست حملے کے بعد عالمی منظرنامے پر ایک پُراسرار خاموشی ہے۔ تہران نے رواں ماہ کے آغاز میں دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کی جوابی کارروائی کے طور پر سیکڑوں ڈرونز اور میزائل داغے۔ قونصل خانے پر حملے کے نتیجے میں سینئر عسکری کمانڈرز ہلاک ہوئے تھے۔ ایران کی جوابی کارروائی ایک سوچا سمجھا اقدام تھا جس کا مقصد صہیونی ریاست کو ایک مضبوط پیغام دینا تھا۔

اگرچہ ان میزائل حملوں سے کوئی قابلِ ذکر یا شدید نقصان نہیں ہوا لیکن خطے کی مضبوط ترین عسکری قوت پر برسنے والے میزائل نے ان کی صلاحیتوں کا امتحان ضرور لیا۔ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ تل ابیب کی جانب سے متوقع انتقامی حملے کے خدشے نے خطے کی صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اسرائیل کے مغربی اتحادیوں اور عالمی برادری کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے مشورے سے صہیونی حکومت کے پیچھے ہٹنے کا امکان موجود نہیں جوکہ پہلے ہی تنازع کو وسیع کرنے کی کوشش میں ہے۔

ایرانی تنصیبات پر اسرائیل کے کسی بھی براہِ راست حملے کے مشرقِ وسطیٰ اور اس کے اردگرد کے خطے پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ دو بڑی علاقائی قوتوں کے درمیان کشیدگی کے باعث فوجی تصادم کا خطرہ بہت زیادہ ہے جبکہ انتہائی دائیں بازو کے نظریات والا اسرائیلی گروہ ایرانی ردعمل پر فوری اور زبردست جوابی کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے۔

کیا امریکا اور اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کو کسی بھی فوجی کارروائی سے روک سکتے ہیں جوکہ پہلے ہی مغربی طاقتوں کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں؟ اسرائیلی جارحیت کا مسلسل دفاع اور اسے ایران پر حملے سے روکنا، یہ دونوں ایک ساتھ ہوتے نظر نہیں آتے۔ ایران کی جوابی کارروائی کی فوری مذمت کرکے ان ممالک نے اسرائیلی حملے میں ایرانی فوجی کمانڈرز کی ہلاکت کو یکسر نظرانداز کردیا۔

یہ اسرائیل کا جنگی اقدام تھا جس نے ایران کو ردِعمل دینے پر مجبور کیا۔ جوابی یا ہم انتقامی کارروائیاں کہیں تو غلط نہ ہوگا، اس کے چکر سے صورتحال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بہ ظاہر یہ صہیونی حکومت کے منصوبے کا حصہ تھا کہ وہ غزہ میں اس کی وحشیانہ کارروائیوں سے شروع ہونے والے تنازع میں ایران کو بھی کھینچ لائے۔ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 34 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ مقبوضہ غزہ میں جاری قتلِ عام کو 6 ماہ 10 دن کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس نے دنیا بھر میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے جس سے اسرائیل کی تنہائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کچھ روز قبل غیر ملکی امدادی کارکنان پر اسرائیل کے جان لیوا بمباری اور جنگی حالات کا شکار مقبوضہ پٹی میں قحط کی صورتحال نے اسرائیل کے قریب ترین اتحادیوں کو بھی عارضی جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن بن یامن نیتن یاہو کی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کو بھی مسترد کردیا ہے۔ اس کے بجائے تل ابیب ایران اور ملحقہ ممالک کے ساتھ جنگ کو وسعت دینے کی کوشش کرچکا ہے۔ اس نے شام اور لبنان پر متعدد بار بمباری کی۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر بلا اشتعال بمباری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی جس کا مقصد بظاہر غزہ میں جاری نسل کشی سے دنیا کی توجہ ہٹانا تھی۔

ایرانی قونصل خانے پر امریکا اور بعض دیگر مغربی ممالک کی خاموشی نے صہیونی ریاست کو مزید بڑھاوا دیا۔ اسرائیل کو ’دفاع کا حق حاصل ہے‘، اس منتر نے تل ابیب کو نہ صرف غزہ میں نسل کشی جاری رکھنے کا لائسنس فراہم کیا ہے بلکہ اسے اپنے ملحقہ ممالک میں فوجی کارروائیوں کا حوصلہ بھی دیا ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی منافقت عیاں ہوچکی ہے۔ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ہونے والی بحث میں انہوں نے خطے میں کشیدگی بڑھانے کے لیے ایران کے جوابی حملے کو قصوروار ٹھہرایا۔

یہ تو واضح ہے کہ ایران نہیں چاہتا تھا کہ کشیدہ صورتحال اس نہج پر پہنچے کہ امریکا کو عسکری طور پر اس معاملے کا حصہ بننا پڑے۔ تہران نے بائیڈن انتظامیہ اور ہمسایہ ممالک کو اپنی ممکنہ جوابی کارروائی اور محدود اہداف کے حوالے سے پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ اس کی وجہ سے امریکا و اتحادیوں بشمول اسرائیل کو وقت مل گیا کہ وہ حفاظتی اقدامات کرلیں۔

نتیجتاً 90 فیصد ڈرونز اور میزائلوں کو اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی ناکام بنادیا گیا۔ ایرانی وزیراعظم نے وضاحت کی کہ ان کا ملک ’اپنا دفاع‘ کررہا تھا اور اس نے انہیں ’تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں سے ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا‘۔ گمان ہوتا ہے کہ پیشگی اطلاع ایرانی قیادت کی جانب سے نقصانات کو کم کرنے کے لیے ایک دانستہ اقدام تھا۔ اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسرائیل کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کال کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایران کی یہ حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی۔

تاہم ایران یہ واضح کرچکا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے مزید کسی بھی فوجی کارروائی کا سخت جواب دیا جائے گا۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے متنبہ کیا ہے کہ ’ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر اسرائیل نے ایرانی مفادات کے خلاف کوئی چھوٹا سا اقدام بھی اٹھایا تو اس کا بڑے پیمانے پر سخت، سنگین اور دردناک ردعمل سامنے آئے گا‘۔

اگرچہ یہ واضح ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی اتحادی نہیں چاہتا کہ تنازع مزید سنگین صورت اختیار کرے لیکن اس کے باوجود اسرائیل انتقام کے لیے بہ ضد ہے۔ اس کے فوجی سربراہ ہرزی حلوی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی رہنماؤں کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے مطالبات کے باوجود ایران کے حملے کا ’جواب دیا جائے گا‘۔

اسرائیل کے اس مؤقف نے جو بائیڈن انتطامیہ کی حالت مزید غیر کردی ہے جوکہ اب اسرائیل کے لاپروا رویے سے پریشان نظر آتی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ واشنگٹن ایران کے خلاف کسی بھی براہِ راست فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا۔

کشیدگی میں کمی کے لیے اسرائیلی قیادت پر نہ صرف امریکا بلکہ اس کے دیگر اتحادیوں کی جانب سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن جرمن وزیرخارجہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اسرائیل کی ایران پر جوابی کارروائی کے حق پر سوال اٹھاتی نظر آئیں۔ وہ کہتی ہیں ’اپنے دفاع کے حق کا مطلب ہے کہ کسی حملے کو روکنا۔ جوابی کارروائی بین الاقوامی قانون کا حصہ نہیں‘۔ یہ بیان اہم ہے کیونکہ جرمنی امریکا کے بعد اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

اس کے علاوہ جرمنی کو عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے ساتھ مل کر ’غزہ میں نسل کشی کی سہولت کاری کرنے‘ کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ غزہ جنگ کے خلاف اٹھنے والی اندرونی آوازوں نے مغربی ممالک کو صہیونی ریاست کی حمایت سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن اسرائیلی رہنماؤں کی جانب سے بیانات کہ وہ نہ صرف ایران کے خلاف انتقامی کارروائی کرے گا بلکہ وہ غزہ جنگ میں بھی تیزی لائیں گے، نے صورتحال کو نہایت سنگین بنادیا ہے۔

ایک مکار اور بدمعاش قوم کو لگام دینا انتہائی مشکل ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں