یہ 2021ء کے اوائل کی بات ہے، شہرِکراچی کے مصروف ترین تجارتی مراکز میں سے ایک پر جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت کی جانب سے قائم کردہ فارمیسی کے افتتاح کے لیے بڑی تعداد میں لوگ ہجوم کی شکل میں موجود تھے۔ وہ پارٹی کے سربراہ کا بےصبری سے انتظار کررہے تھے جنہیں افتتاحی تقریب میں شرکت کرنا تھی۔

جلد ہی مجمع کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی اور جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر، حافظ نعیم الرحمٰن گاڑی سے اترے۔ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہجوم نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ کچھ ان سے مصافحہ کرنے کے خواہاں تھے اور دیگر ان کے ساتھ تصاویر بنوانا چاہتے تھے۔

لوگوں کا جوش اتنا دیدنی تھا کہ انتظامیہ کو اعلان کرنا پڑا کہ ’ناگزیر وجوہات‘ کی بنا پر تقریب کچھ دیر کے لیے مؤخر کردی گئی ہے۔

اس مجمع میں متعدد صحافی بھی موجود تھے جن میں سے ایک نے لکھا کہ حافظ نعیم الرحمٰن ’ایک تاثر پیدا کررہے ہیں‘ اور کہا کہ اگر کراچی میں جماعتِ اسلامی آنے والے انتخابات میں دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ بات ان کے لیے حیران کُن ہرگز نہیں ہوگی۔

یہ پیش گوئی کسی حد تک سچ ثابت ہوئی اور آنے والے انتخابات میں حافظ نعیم الرحمٰن کی مقبولیت کی وجہ سے کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کی مضبوط واپسی ہوئی جوکہ 2018ء کے انتخابات میں کراچی کے بڑے سیاسی پردے سے غائب ہوچکی تھی۔

الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار کے مطابق 8 فروری کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک 177 فیصد بڑھا جوکہ 2018ء سے 2023ء میں 2 لاکھ 80 ہزار سے 7 لاکھ 75 ہزار تک پہنچ گیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کامیابی کا سہرا حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت کے سر سجایا۔

تقریبِ حلف برداری

گزشتہ روز جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں عوام کی بڑی تعداد کے سامنے تقریب میں 52 سالہ حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کے چھٹے امیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

حلف اٹھانے کے بعد حافظ نعیم نے اپنے تفصیلی خطاب میں اپنا ایجنڈا پیش کیا جس میں پاکستان کو درپیش تمام مسائل مثلاً جمہوری خسارہ، ڈوبتی معیشت، حالیہ انتخابات، عدلیہ اور فوج کے کردار پر سوالات وغیرہ شامل تھے۔

انہوں نے کہا، ’جماعت اسلامی فارم 47 کے ذریعے ہم پر مسلط ہونے والوں کو تسلیم نہیں کرتی اور اس انتخابی غلطی کو درست کرنے کے لیے پارٹی کو تحریک کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔ ہم ان تمام موروثی جماعتوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے جو خاندانوں میں چلتی ہیں یا ’وصیت‘ پر چلتی ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کے گملوں میں پروان چڑھتی ہیں‘۔

لیکن ایک ایسی جماعت کے لیے جو نپے تُلے انداز میں گفتگو کرنے والے مقررین کے لیے جانی جاتی ہے، حافظ نعیم نے زیادہ مقبولیت پسندانہ انداز اپنا کر اپنی بیان بازی سے مجمع میں جوش پیدا کیا۔ اپنی خطاب کے اختتام پر وہ وہ اس قدر جذباتی ہوگئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔

پاپولسٹ لیڈر

این ای ڈی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے گریجویٹ حافظ نعیم الرحمٰن نے ایک عشرے تک جماعت اسلامی کراچی کی قیادت کی ہے۔

مبصرین انہیں دائیں بازو کی قیادت کرنے کے لیے ایک غیر روایتی انتخاب کے ساتھ ساتھ ایک ایسے رہنما کے طور پر بھی دیکھتے ہیں جو جماعت اسلامی کو ’انتخابی سیاست کے زمینی حقائق اور تقاضوں سے دوبارہ جڑنے میں مدد کرے گا‘۔

حافظ نعیم الرحمٰن مقبول فیصلے کرنے اور آواز اٹھانے کی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ایک پاپولسٹ لیڈر مانے جاتے ہیں۔

کراچی کے متعدد مسائل کا مطالعہ کرنے والی ملک گیر سماجی تحقیقی تنظیم، پلس کنسلٹنٹس کے کاشف حفیظ نے کہا کہ ’کراچی کی سیاست میں ایک بہت بڑا خلا تھا کیونکہ مینڈیٹ رکھنے والی جماعتیں بھی مقامی لوگوں کی آواز نہیں بن رہی تھیں‘۔

انہوں نے کہا کہ اس خلا نے حافظ نعیم کو موقع فراہم کیا اور وہ کراچی کے رہائشیوں کے مسائل سے متعلق اٹھنے والی ’واحد آواز‘ بن گئے۔

ایک بڑا چیلنج

رواں ماہ کے آغاز میں حافظ نعیم الرحمٰن کا امیر جماعت اسلامی پاکستان کے طور پر تقرری کے بعد سے لوگوں کے ذہنوں میں صرف ایک سوال ہے۔ کراچی میں انہوں نے جو کامیابی حاصل کی، کیا قومی سطح پر بھی وہ اس کا مظاہرہ کرپائیں گے؟

جب ڈان نے یہی سوال خود حافظ نعیم الرحمٰن سے بطور امیر جماعت ان کی تقرری کے بعد پوچھا تو انہوں نے مختصر جواب دیا جہاں انہوں نے عوام کو امید دلانے پر زور دیا۔

’پاکستان کے نوجوان مایوس ہیں، ہم نے پہلے کبھی ان میں ایسی مایوسی نہیں دیکھی، ہماری جماعت انہیں امید دلانے آئی ہے‘۔

جب ان سے ملک کو درپیش متعدد بحرانوں کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا، ’میں سمجھتا ہوں کہ سب کو خواہ وہ ادارہ ہو یا فرد، اپنے آئینی دائرے میں واپس جانا ہوگا۔ بس‘۔

گزشتہ برسوں میں جماعت اسلامی کی سیاست پر قریبی نظر رکھنے والے مبصرین کے نزدیک حافظ نعیم کے لیے جماعت میں اپنا نیا عہدہ ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

سینئر صحافی مظہر عباس جو کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، کہا کہ ’یہ حافظ نعیم الرحمٰن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ خیبرپختونخوا، بلوچستان یا پنجاب کے لیے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں‘۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں