سرب فورسز کے ہاتھوں قتل عام کو نسل کشی قرار دلوانے کیلئے بوسنیا کی پاکستان سے حمایت کی درخواست

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2024
بوسنیا کے صدر نے صدر مملکت  آصف زردری کو خط ارسال کیا ہے—فائل فوٹو:
بوسنیا کے صدر نے صدر مملکت آصف زردری کو خط ارسال کیا ہے—فائل فوٹو:

بوسنیا کے صدر نے صدر مملکت آصف زردری کو ایک ارسال کیا خط کیا ہے جس میں انہوں نے سرب فورسز کی جانب سے بوسنیا کے شہریوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے سے متعلق اقوام متحدہ میں پیش کیے جانے کے لیے تیار کی گئی قرارداد کی حمایت کی درخواست کی ہے۔

اپنے خط میں بوسنیا اور ہرزیگوینا کے صدر نے صدر پاکستان نے سرب فورسز کی جانب سے بوسنیا میں کیے گئے قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے علاوہ 11 جولائی کو متاثرین کی یاد میں عالمی قرار دینے سے متعلق قرارداد کے ڈرافٹ پر بھی پاکستان کی حمایت طلب کی ہے۔

ڈان کی جانب سے دیکھے گئے خط کے مطابق اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد کا مسودہ جرمنی اور روانڈا نے تجویز کیا ہے۔

ان ممالک کے علاوہ امریکا، بوسنیا اور ہرزیگووینا سمیت دیگر ممالک نے اس قرارداد کے مسودے کی تیار میں معاونت فراہم کی ہے۔

اپنے خط میں بوسنیا کے صدر نے پاکستان سے قرارداد کے حق میں ووٹ دینے کی درخواست کی ہے، قرارداد میں 1995 میں بوسنیا میں قتل عام کو نسل کشی قرار دینے کے ساتھ ساتھ نہتے بوسنیائی شہریوں پر ڈھائے جانے والے سرب فورسز کے مظالم کی مذمت کی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ پیش کی جانے والی قرارداد پر ممکنہ طور پر 2 مئی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت بحث کی جائے گی جب اس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اس رپورٹ پر بحث کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی اس رپورٹ میں امن، بین المذاہب اور بین الثقافتی بات چیت، افہام و تفہیم اور تعاون کے کلچر کو فروغ دینے کے حوالے سے توجہ مرکوز کی جائے گی۔

یاد رہے کہ 1995 میں بوسنیا میں سرب فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔

بوسنیا کا تنازع 1992 میں سابقہ یوگوسلاویہ کے ٹوٹ پھوٹ اور بوسنیائی سربوں کی بغاوت اور اپنی ریاست قائم کرکے سربیا سے الحاق کی مہم کے آغاز کے بعد شروع ہوا تھا۔

اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد افراد مارے گئے تھے اور 1995 میں تنازع ختم ہوگیا تھا۔

جولائی 1995 میں سرب فوجیوں نے 8 ہزار بوسنیائی مردوں کو ان کے اہل خانہ سے الگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور بوسنیائی سرب فوجیوں نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے مسلمانوں کی لاشیں مشرقی علاقوں میں اجتماعی قبروں میں دفن کردی تھیں۔

بعدازاں نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت نے بوسنیائی سرب سیاسی رہنما راڈوان کراڈزک اور سابق فوجی کمانڈر ریتکو ملاڈک کو نسل کشی کی منصوبہ سازی پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سرب فوج کے ہاتھوں ہونے والی نسلی کشی کے بعد اب تک 6 ہزار 600 باقیات جمع کر کے دفنا دی گئی ہیں اور سربرینیکا کے باہر ایک وسیع یادگار بنائی گئی ہے جہاں مزید باقیات دفنائی جا رہی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں اس مقام پر مزید 30 متاثرین کی باقیات دفنائی جانی تھیں، جن کی شناخت حال ہی میں ہوئی تھی، رپورٹ میں کہا گیا تھا اجتماعی قبروں سے مسلسل مزید متاثرین کی شناخت کا عمل جاری ہے اور انہیں ہر سال 11 جولائی کو دفنایا جاتا ہے جو 11 جولائی 1995 کو قتل عام شروع ہونے والی تاریخ کی مناسبت سے ہوتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں