راہول گاندھی نے مودی سے ٹرمپ کے 5 طیارے مار گرانے کے بیان پر وضاحت طلب کرلی
بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بارے میں واضح وضاحت پیش کریں کہ حالیہ بھارت-پاکستان فوجی تصادم کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کے مطابق 5 لڑاکا طیارے مار گرائے گئے تھے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ہفتہ کے روز اس معاملے پر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ قوم کو ان طیاروں کی بابت سچائی سے آگاہ کریں۔
راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا کہ ’مودی جی، 5 طیاروں کی حقیقت کیا ہے؟ ملک کو جاننے کا حق ہے!۔
بھارتی وزیر اعظم سے ’سچ بولنے‘ کا مطالبہ
ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ طیارے کس ملک کے تھے، اور نہ ہی مزید تفصیلات فراہم کیں۔
بھارت-پاکستان جنگ کے بعد، ٹرمپ متعدد بار (60 سے زائد مرتبہ) یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ 10 مئی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کردہ جنگ بندی ان کی ثالثی کا نتیجہ تھی، جس سے پہلے امریکا نے دونوں ممالک سے خفیہ سفارتی روابط قائم کیے تھے۔
تاہم بھارت نے ان کے اس دعوے کو چیلنج کیا، اور کہا ہے کہ جنگ بندی امریکی مداخلت یا تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی کے باعث نہیں ہوئی۔
کانگریس کے جنرل سیکریٹری برائے اطلاعات جے رام رمیش نے مودی پر ٹرمپ کے دعوؤں کا جواب دینے میں ناکامی کا الزام لگایا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ میزائل 24ویں بار داغا گیا ہے، وہی دو پیغامات، وزیر اعظم کو اب خود پارلیمنٹ میں آ کر واضح اور دو ٹوک بیان دینا ہوگا کہ صدر ٹرمپ پچھلے 70 دنوں سے کیا دعویٰ کر رہے ہیں۔
جیسے جیسے بھارتی پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس قریب آ رہا ہے، اپوزیشن نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مودی سے جواب مانگنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا آغاز اپریل میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے ایک حملے سے ہوا۔
اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد تیزی سے فوجی تصادم شروع ہوا، جب اسلام آباد نے نئی دہلی کے ’بلااشتعال حملوں‘ کا جواب دینے کا اعلان کیا، چند دن بعد 10 مئی کو امریکی مداخلت سے جنگ بندی عمل میں آئی۔
پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے فضائی لڑائی میں بھارت کے 6 طیارے مار گرائے، جب کہ بھارت کے اعلیٰ فوجی عہدیدار نے مئی کے آخر میں اعتراف کیا تھا کہ جھڑپ کے پہلے دن بھارت کو فضا میں نقصان اٹھانا پڑا تھا، مگر بعد میں حکمت عملی بدل کر جنگ بندی سے قبل برتری حاصل کر لی گئی۔
10 مئی کو صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ امریکا نے دونوں ممالک سے بات کی ہے، یہ دونوں جوہری طاقتیں ایک دوسرے پر حملہ کر رہی تھیں۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ ہم نے کہا ’آپ لوگ تجارتی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ ہتھیاروں (اور شاید جوہری ہتھیاروں) کا تبادلہ بند کریں، ورنہ معاہدہ نہیں ہوگا۔
تاہم بھارت نے ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا اور اصرار کیا کہ جنگ بندی براہِ راست نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین مذاکرات کا نتیجہ تھی، نہ کہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت سے یہ ہوئی۔
بھارت کا مستقل مؤقف ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تنازعات میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو قبول نہیں کرتا۔
امریکا، بھارت اور پاکستان دونوں کو خطے میں اپنے اہم شراکت دار سمجھتا ہے، جب کہ واشنگٹن نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہاں ہے، تاکہ ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جاسکے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے (جس کا الزام نئی دہلی نے پاکستان پر لگایا تھا) نے دونوں جوہری طاقتوں کو پانچویں مکمل جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا، اسلام آباد نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔












لائیو ٹی وی