کوئٹہ: خونریزی سے آگے ایک خوبصورت تصویر
بلوچستان کا سب سے بڑا شہر کوئٹہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہونے کہ وجہ سے قدرتی طور پر قلعے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔
اس شہر کو جنوب میں زرغون نامی پہاڑ، مشرق میں مردار، شمال میں چلتن جبکہ مغرب میں تکاتو نے اپنی باہنوں کے حصار میں لے رکھا ہے۔ شاید یہی اس کے نام کی وجہ بھی ہے، کیونکہ کوئٹہ پشتو کے لفظ “کواٹا” کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کے معنی قلعہ کے ہیں۔
اس شہر کے خوبصورت پہاڑ اور قدرتی حسن آج بھی مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ شہر میں تقریباً تمام ہی زبانوں، مذاہب، فرقوں اور نسلوں پر مشتمل لوگ کئی صدیوں سے ایک دوسرے کو کھلے دل کے ساتھ اپنائے ہوئے ہیں۔ خون خرابے اور لاقانونیت کے باوجود، کوئٹہ آج بھی اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے شہرت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
یہ کبھی امن کا گہورا تھا، لیکن اب یہ بیتے دنوں کی باتیں لگتی ہیں۔ جب ملک بھر سے لوگ یہاں کے امن، شانتی اور پیار سے لطف اندوز ہونے آتے تھے۔ کبھی یہاں مذہب، قبیلہ، معاشرتی و سیاسی اقدار اور روایات معاشرے کے کمزور طبقہ کے تحفظ کا ذریعہ ہوتے تھے۔ کوئٹہ کی مضبوط قبائلی روایات نے کبھی بھی اقلیتوں کو نشانہ بننے نہیں دیا، خواہ وہ ہندو ہوں یا پھی مسیحی برادری۔
آج کے پر تشدد دور میں بھی خواتین کو آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔ اقلیتی برادریوں کے کچھ لوگ شہر کے حساس علاقوں میں سفر کرتے ہوئے خواتین کو بطور حفاظتی ڈھال استعمال کرتے ہیں۔
یہاں خواہ کوئی نہتّا ہو یا پھر اسلحہ بردار، سبھی خواتین، بچوں اور بزرگوں کی عزت کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کمزور طبقے پہلے بھی یہاں پر محفوظ تھے اور آج بھی بڑی حد تک انہیں کوئی خطرہ نہیں۔
یہاں تک کہ آج بھی زیادہ تر لوگ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ حال ہی میں یہاں بسنت کا تہوار منایا گیا، جس نے ثابت کیا کہ لوگوں میں نفرتیں اور تکالیف بھلانے کا حوصلہ باقی ہے۔
بڑے بوڑھوں سے لے کر بچوں تک سب ہی آسمان کو رنگ برنگی پتنگوں سے سجانے میں شریک نظر آئے، اس موقع پر ہر سو خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔
بہت سے لوگ شٹر ڈاؤن ہڑتالوں اور افرا تفری کے دوران بھی تفریحی مقامات کا رُخ کرتے ہیں۔
شہر میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کے نتیجے میں شٹر ڈاؤن ہڑتالیں روز مرہ کا معمول سی ہو گئی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سےحالیہ پُر تشدد واقعات نے کوئٹہ کے قدرتی اور روایتی حسن کو گہنا دیا ہے۔ اب یہ شہر خود کش دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے حوالوں سے جانا جاتا ہے۔
کوئٹہ کی بربادی کی کہانی 80 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، جب سی آئی اے کے حمایت یافتہ مجاہدین، جنہیں آج دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، کو ناصرف یہاں پناہ دی گئی بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ امریکی پٹّھو نا صرف کوئٹہ میں اسلحہ لائے بلکہ منشیات جیسی لعنت بھی انہی کے ہاتھوں یہاں متعارف ہوئی۔ منشات کے ناسور نے نسلوں کو برباد کر دیا ہے۔ پاکستان کا سب سے کم آبادی پر مشتمل یہ صوبہ بدقسمتی سے آج عالمی منشیات کی ایک سرے سے دوسرے سرے تک ترسیل میں اہم راہداری کا کرادر ادا کر رہا ہے۔
پچھلے پچیس سالوں سے کوئٹہ میں طبی خدمات فراہم کرنے والے ڈاکٹر عرفان ترین کہتے ہیں کہ سیکیورٹی چیک پوسٹوں نے تمام تفریحی مقامات کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ “شہر کی سڑکیں بند رہتی ہیں، اِن دنوں آپ کہیں بھی آرام سے آ جا نہیں سکتے۔”
ترین بتاتے ہیں کہ شہر میں جہاں آپ کو لوگ احتجاج کرتے دکھائی دیں گے، وہیں پشتو فوک رقص “اٹن” کی دُھن پرآج بھی بہت سے لوگ محو رقص ہوجاتے ہیں۔
“لوگ آج بھی کسی نہ کسی طرح شہر کے مختلف علاقوں میں کھانوں کی دعوتوں میں مصروف ہوتے ہیں۔”بالخصوص ہر جمعہ کو لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے ایوب اسٹیڈیم اور صادق شہید پارک کا رُخ کرتے ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال بھی لوگوں کو بڑی تعداد میں مارکیٹوں، ہوٹلوں اور بازاروں میں جانے سے نہیں روک سکی۔
ہنہ اُرک اور ہنہ جھیل وہ سیاحتی مقام ہیں جو سیاحوں کو اپنی جانب بلاتے ہیں۔
ٹھنڈی اور تازہ ہوا شہریوں کو یہاں گرمیوں کی راتیں گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان مقامات پر سیاحوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں، لیکن ملک بھر سے اور بالخصوص کوئٹہ سے لوگ جوق در جوق یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔
کوئٹہ کنٹونمنٹ کے قریب ان مقامات کی جانب جاتی سڑکوں پر جمعہ اور اتوار کو ٹریفک جام معمول کی بات ہے۔ خوش قسمتی سے یہ دو سیاحتی مقامات کوئٹہ میں محفوظ ترین تصور ہوتے ہیں۔
شہر کے قدیم ہوٹلوں میں سے ایک بلدیہ ہوٹل آج بھی دانشوروں، سیاست دانوں اور ادبی شخصیات سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔ برطانوی راج میں قائم کی جانے والی ضلعی عدالت کے بالکل سامنے ہوٹل کی عمارت ہمیشہ ہی لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔ چائے کی چسکیاں لیتے مشہور فوٹو گرافر خالد نورزئی کہتے ہیں کہ یہ ہوٹل انہیں مختلف لوگوں سے ملنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
“یہاں سب ہی سیاست پر گفتگو کرتے ہیں، اس میدان کے تمام پرانے کھلاڑی یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔”
کسی زمانے میں خان عبدالصمد خان اچکزئی، میر غوث بزنجو اور ان جیسے دوسرے منجھے ہوئے سیاست دان ان ہوٹلوں میں سیاست پر بحث کرتے تھے۔ قوم پرست بلوچ اور پشتون رہنما ان ہوٹلوں میں ناصرف وقت گزاری کے لیے آتے تھے بلکہ سنجیدہ مباحثوں میں ایک دوسرے کو اپنے دلائل سے قائل بھی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان میں ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت سیاسی شعور کہیں زیادہ ہے۔ پورا صوبہ ہی ایک سیاسی معاشرہ ہے، جو ملک بھر میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔
تو ہم واپس کوئٹہ کی جانب چلتے ہیں۔ تمام ہوٹلوں میں دستیاب “مٹن روسٹ” یہاں کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مشہور ڈش ہے۔ شہر کے شمال میں پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر کچلاک ان دنوں “مٹن روسٹ” کی وجہ سے بے حد مشہور ہے، جبکہ سلیم اور دبئی ہوٹل لذیذ روائتی روسٹ کی اقسام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو ہر وقت کالی روایتی پگڑی باندھے پشتون افراد کھانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی افراد کے علاوہ دوسرے علاقوں سے بھی لوگ یہاں کے روائتی کھانوں سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں۔
سجی قدیم بلوچ ڈش ہے جسے کوئلے پر قدرتی اور روایتی انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ پورا پاکستان ہی اس لذیذ ڈش کا دیوانہ ہے۔
مختصر یہ کہ کوئٹہ کے باسی امن اور ترقی پسند ہیں تاہم بدقسمتی سے مٹھی بھر لوگوں نے یہاں کے قدرتی حسن اور امن کو خراب کر دیا ہے۔




















لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں