Dawnnews Television Logo
تجاوزات خالی کرائے جانے کے بعد کراچی کی قدیم ایمپریس مارکیٹ کا منظر — فوٹو: اے پی پی

تجاوزات کے خلاف آپریشن، کیا کھویا کیا پایا؟

کراچی میں قائم قدیم مارکیٹوں اور دکانوں کو مسمار کرنے پر تحریک انصاف کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2018 04:50pm

تجاوزات قائم کرنا ایک غیر قانونی عمل ہے، کسی جگہ پر دہائیوں سے قابض رہنا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ آپ اُس زمین کے مالک بن چکے ہیں۔ ملک میں حال ہی میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن سے لوگوں کو یہ سبق تو مل گیا ہے کہ تجاوزات چاہے کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوجائیں انہیں قانونی ہونے کی سند نہیں مل سکتی۔

ویسے تو پاکستان میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز 2 سال قبل عدالتی احکامات کے پیش نظر کراچی میں لگے بل بورڈز ہٹانے سے ہوا تھا، یہ بل بورڈز شہر کی خوبصورتی کو پھیکا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال کے لیے بھی خطرے کا باعث تھے۔

اس بات کا احساس انتظامیہ کو تب ہوا جب کراچی میں ذرا سی آندھی نے دیو ہیکل بل بورڈز زمین بوس کردیے تھے، جس سے کئی شہری زخمی اور چند جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں اور سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

دیر آید درست آید، کراچی سے ان بل بورڈز کا صفایا کردیا گیا تاہم ملک کے دیگر بڑے شہروں میں اب بھی آسمان کو چھوتے بل بورڈز نظر آتے ہیں۔

دہائیوں سے انتظامیہ کی جانب سے بل بورڈز انڈسٹری کو ہوا ملنے کے بعد اب دیگر شہروں سے بھی اس کے ہٹانے کے احکامات آنے شروع ہوگئے ہیں جس کا ثبوت رواں مہینے ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 ماہ میں لاہور سے تمام بل بورڈز ہٹانے کا حکم نامہ ہے۔

ملک کے کونے کونے میں تجاوزات کی بھرمار ہے جسے ختم کرنا ناگزیر تھا، تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز سال 2018 میں ستمبر کے مہینے میں عدالتی احکامات کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہوا جہاں سالوں سے آباد کچی آبادیاں چند دنوں میں خالی کرائی گئیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں تجاوزات کی اجازت صرف امیروں کو ہے

ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں کئی غیر قانونی عمارتیں، شادی ہالز، کاروباری مراکز اور مکانات واگزار کرائی گئیں۔

اسلام آباد کی صفائی کے بعد آپریشن کا رخ کراچی کی جانب کیا گیا، 27 اکتوبر 2018 کو عدالت کی جانب سے کراچی میں تجاوزات خالی کرانے کا حکم آیا جس کی تعمیل میں متعلقہ اداروں نے نومبر سے آپریشن کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔

اس آپریشن کے دوران چند اہم عمارتوں میں سے ایک کراچی میں انگریز دور کی بنائی ہوئی ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں بنی مارکیٹوں کو مسمار کرنا تھا جس کے بعد اس قدیم عمارت کا نقشہ عوام کے لیے قابل دید تھا۔

کراچی تجاوزات بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، جس کے باعث آپریشن میں کافی وقت درکار ہے جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر شہری انتظامیہ کو سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے ریلوے لائن کے اطراف زمین پر قائم تجاوزات کو بھی واگزار کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

شہر قائد کے ساتھ ساتھ یہ کام لاہور میں بھی جاری ہے جہاں لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ مافیا اور بااثر شخصیت منشا بم سے بھی 20 سال سے قبضہ کی گئی سیکڑوں کینال اراضی کو واگزار کرایا۔

تحریک انصاف کی تبدیلی کے نعرے پر عوام نے بے روزگاری، مہنگائی، بے ظابطگیوں کے خاتمے سمیت انصاف کی فراہمی اور معاشرے کے تبدیل ہونے کی امیدیں لگا رکھی ہیں، عوام کی امیدیں پوری ہوں گی یا نہیں یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا تاہم موجودہ حکومت نے برسوں سے قائم تجاوزات ختم کرکے گزشتہ حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

غیر قانونی طور پر کسی کی زمین پر رہنا کسی طور پر جائز نہیں چاہے اس زمین سے آپ کا روزگار ہی کیوں نہ چل رہا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: تجاوزات کے خلاف آپریشن کا نشانہ صرف غریب ہی کیوں؟

شہری انتظامیہ کی جانب سے شروع کیے جانے والے ان آپریشنز کے نتیجے میں ہزاروں افراد نے اپنی دکانیں، مکان اور کاروبار کھوئے ہیں تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تجاوزات آئے کہاں سے تھے۔

شہریوں نے اپنے کاروبار اور گھروں کے مسمار کیے جانے پر احتجاج کیا اور یہ احتجاج کیوں نہ ہو آخر انہوں نے ان تجاوزات کی مد میں حکام کو رقم ادا کر رکھی تھی۔

ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ملک بھر میں تجاوزات حکام کی نااہلی کا نتیجہ ہیں۔

تجاوزات کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کے اقدامات قابل ستائش ہیں تاہم دہائیوں سے غیر قانونی جگہوں پر بیٹھے ہوئے افراد کو ایسا کرنے کی اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی کے بغیر یہ آپریشن ادھورا ہے۔

سپریم کورٹ نے بھی ایک سماعت کے دوران سندھ حکومت پر یہ بات واضح کی تھی کہ عدالت نے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کے حوالے سے کوئی قدغن یا پابندی نہیں لگائی، جن لوگوں کی دکانیں ختم کی گئی ہیں انہیں متبادل جگہ فراہم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس حب بھی ہے جہاں ملک کے ہر ضلع کے لوگ بستے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش اور کاروبار بھی اسی شہر سے وابستہ ہے۔

یہ بات تو قابل ستائش ہے کہ ملک میں تجاوزات کے معاملے میں جنگل کے قانون کا خاتمہ ہورہا ہے جس کے بعد لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت آپریشن سے پہلے ہی فٹ پاتھ پر لگائی اپنی دکانیں اور حدود سے باہر نکلے بورڈز بھی ہٹاتے دیکھا گیا۔

طارق روڈ پر قائم کرتا گلی میں کرتا خریدتے ہوئے دکاندار نے بتایا کہ 10 سال قبل انہوں نے اپنی دکان کے لیے 2 لاکھ روپے کی رقم ادا کرکے خوبصورت اور بڑا بورڈ بنوایا تھا تاہم انہیں اس طویل مدت میں کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن نئی حکومت نے اس غیر قانونی عمل کو ترک کرنے پر انہیں مجبور کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا بورڈ اپنی مدد آپ کے تحت اتروارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: یہ ایمپریس مارکیٹ ہے یا رام دین پانڈے کی قبر؟

کراچی کے مختلف علاقوں میں ہزاروں ایکڑ اراضی گزشتہ حکومتوں میں ’چائنا کٹنگ‘ کی بھی نذر ہوئی، جہاں شہریوں کے لیے کسی دور میں پارک، ہسپتال، اسکول قائم ہونے تھے یا ہوچکے تھے انہیں ختم کرکے وہاں رہائشی اسکیموں کی بھرمار نظر آتی ہے۔

انتظامی امور سنبھالنے والے گزشتہ حکمرانوں کے علاوہ اس غیر قانونی عمل میں عوام بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جنہوں نے ان غیر قانونی زمینوں کو کم قیمت میں خرید کر یا رشوت دے کر اسے اپنی رہائش یا کاروبار کی جگہ بنائی۔

ایسے لوگوں سے سوال ہے کہ احتجاج تو جائز لیکن احتجاج کس بات پر؟ غیر قانونی کام میں ذمہ داری آپ کی بھی ہے جنہیں معلوم تھا کہ جگہ غیر قانونی ہے تاہم کم پیسوں کی لالچ میں اپنے لیے ایسی زمین کا انتخاب کیا۔

ملک بھر میں ہر طرف پھیلے ملبے کے ڈھیر کو دیکھ کر یہاں بھی ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس سے قبل یہاں کوئی قانون نہیں تھا؟ عوام کے ٹیکسوں سے چلنے والے پولیس اور متعلقہ اداروں کے ناک کے نیچے یہ مارکیٹیں، یہ گھر، یہ علاقے کیسے بنتے گئے، ان عمارتوں کی متعلقہ اداروں سے جعلی فائلیں کیسے بنتی گئیں؟؟

تجاوزات کے خلاف آپریشن ضرور کریں، سرکاری اراضی سے غیر قانونی قابضین کو بالکل ہٹائیں، سڑکیں، چوراہے کشادہ کریں، شہروں کی خوبصورتی ضرور بحال کروائیں لیکن مختلف محکموں میں بیٹھے ان تجاوزات کو قائم کروانے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ضرورت ہے۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں، ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ iusmansaif ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔