لکھاری یونیورسٹی آف الینوائے سے اربن/ریجنل پلاننگ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
لکھاری یونیورسٹی آف الینوائے سے اربن/ریجنل پلاننگ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

ہمیں شہروں کے بارے میں ویسے ہی سوچنا اچھا لگتا ہے جیسے کہ ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں، یعنی صاف ستھرے اور ہم آہنگ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے شہر پرفیکٹ ہونے سے بہت دُور ہیں۔ وہ خود بخود بڑھتے رہے ہیں اور اس دوران باقاعدہ منصوبہ بندی نے صرف متوسط اور بالائی طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔

ہماری ریاست کو صلاحیتوں کی محدودیت کا سامنا ہے، دولت کے مفادات یہاں مضبوط ہیں اور ہم نے بتدریج عوامی فلاح اور خدمات کی فراہمی میں عوام کے کردار کو کم کر دیا ہے اور یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ مفادات کا تحفظ کرنے والے نظامِ حکمرانی نیو لبرل ازم کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

یہ اقتصادی سیاسی تناظر لازماً ایک ایسے چکر کی بنیاد رکھتا ہے جس میں لوگوں کو ان کی جائیداد سے محروم کرکے جائیداد ہتھیائی جاتی ہے، جس کا ثبوت دنیا بھر میں عام طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ مکانات خریدنا غریبوں کی دسترس سے دُور ہوچکا ہے تو وہ بے قاعدہ بستیوں میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ چونکہ انہیں کمرشل جگہوں سے نکال دیا جاتا ہے اس لیے وہ بے قاعدہ کاروبار شروع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ جو خود کاروبار شروع نہیں کرسکتے، وہ غیر رسمی طور پر دوسروں کے لیے کام کرنے لگتے ہیں جس میں اشرافیہ کے لیے گھریلو ملازم بننا، یا پھر کنسٹرکشن و مینوفیکچرنگ جیسے رسمی و نیم رسمی شعبوں میں کام کرنا شامل ہے۔ اس سے سرکاری و نجی شعبے میں شہری بے ضابطگی پیدا ہوتی ہے جس کا دستاویزات میں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔

ہم غیر رسمی سرگرمیوں کے بارے میں پالیسیاں بناتے ہوئے غریبوں اور ان کی مجبوریوں کا کبھی بھی نہیں سوچتے۔ جگہ خالی کروانے کے لیے ہم 'تجاوزات کے خلاف آپریشن' کا سہارا لیتے ہیں جو ہزاروں لوگوں سے ایک ہی وقت میں روزگار چھین لیتا ہے۔ معیشت کو باضابطہ اور دستاویزی بنانے کے لیے ہم ٹرانزیکشنز پر پابندی لگا دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ان شعبوں سے جڑے غریب مزدوروں کی زندگیوں کا کیا ہوگا؟ قانون نافذ کرنے والے اہلکار مثلاً پولیس باقاعدگی سے غیر رسمی کام کرنے والوں کو ہراساں کرکے رشوت لیتی ہے یا جرمانے عائد کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام اقدامات صرف انہی لوگوں کے خلاف لیے جاتے ہیں اور انہی کو متاثر کرتے ہیں جو مزاحمت بالکل بھی نہیں کرسکتے۔

بے ضابطگی کی بحث کو ہمیں اس جانب موڑنا چاہیے جو یہ ہے: یعنی حقوق کا مسئلہ، شہر پر حق، عوامی مقامات پر حق اور نچلے طبقے کا روزگار پر حق۔ غیر رسمی و بے ضابطہ سرگرمیاں اس لیے اچھی نہیں ہیں کیونکہ یہ متوسط اور بالائی طبقے کا طرزِ زندگی برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایک ذیلی فائدہ ہے: ایسی صورتحال میں جہاں ریاست اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو رہنے کی جگہ، متبادل روزگار اور سماجی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے، وہاں عدم رسمیت ایک حق ہے۔

بحث میں تبدیلی تب ممکن ہے جب ہم عدم رسمیت کی تعریف دوبارہ متعین کریں۔ صرف تبھی ہم غیر رسمی سرگرمیوں کو 'تجاوزات' یا 'غیر قانونی' کہنے کے بجائے اسے پاکستان کے کروڑوں غریب شہریوں کے لیے زندہ رہنے کے واحد راستے کے طور پر دیکھیں گے۔

عوامی مقامات پر تجارت یا رہائش کے لیے قبضہ کرنا ایک مزاحمتی قدم ہے۔ یہ غریبوں کے لیے اپنے سامنے موجود حدود و قیود میں رہتے ہوئے زندہ رہنے کی ایک کوشش ہے۔ کئی طرح سے دیکھیں تو جس زمین پر ان کا 'غیر قانونی' قبضہ ہوتا ہے، وہ ان قابضین کا واحد اور انتہائی ضروری اثاثہ ہوتا ہے۔ بائیں بازو کے ماہرینِ عمرانیات اسے survival by repossession یا زندہ رہنے کے لیے (زمین کا) حصول کہتے ہیں۔

کیونکہ بہرحال کیا ٹیکس اکھٹا کرنے مگر جمع نہ کروانے والے پوش ریسٹورینٹ میں اور سڑک پر غیر دستاویزی انداز میں کاروبار کرنے والے چھوٹے سبزی فروش میں کوئی فرق نہیں؟ کیا کے ایم سی کی زمین پر کاروبار کرنے والے کا اتنی غیر قانونی دولت اکھٹی کرلینے کا امکان تھا جتنی کہ ان قانون سازوں کے پاس ہے جو صفر ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر مہنگی، تحفے کے طور پر حاصل گاریوں میں گھومتے ہیں؟ کیا وہ وفاقی وزرا جن کی جائیدادیں آس پاس موجود سرکاری زمین پر بھی قبضہ کر لیتی ہیں، یا پھر وہ لگژری ہوٹل جنہوں نے پارکنگ کے لیے عوامی مقامات کو باڑ لگا کر ہتھیا لیا ہے، یا وہ ریاستی ادارے جنہوں نے سیکیورٹی کے نام پر پوری پوری سڑکیں بند کر رکھی ہیں، ان کی وہی ذمہ داری ہے جو سرکاری زمین پر قائم ایک جھونپڑی میں رہ رہے شخص کی ہے؟

یہ واضح ہے کہ ضوابط کا نفاذ اور تجاوزات کے خلاف آپریشن صرف اشرافیہ کے لیے ایک طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے آس پاس موجود غریبوں سے بہت زیادہ تنگ آجائیں تو انہیں محروم کرنے کا چکر دوبارہ شروع کردیں۔ بڑے اور زیادہ طاقتور کھلاڑی یا تو قانون کے ہاتھ سے بہت بڑے ہوجاتے ہیں یا پھر وہ اس نفاذ کو خرید کر اس پر اثرانداز ہوکر بچ جاتے ہیں۔ سماجی طور پر ہم اشرافیہ کے ایسے قبضوں کو قبول کرلیتے ہیں جبکہ اسی کام کے لیے غریبوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو مناسب انداز میں باضابطہ بنانے اور قوانین کے ہمہ گیر نفاذ سے ملک کو طویل مدتی فوائد حاصل ہوں گے۔ مگر ہم ان لوگوں کے بارے میں سوچنے میں کیوں ناکام ہوجاتے ہیں جو ان فوائد کے بارآور ہونے تک محروم ہی رہیں گے؟

بظاہر ہماری پالیسیاں دُور اندیشی سے عاری ہیں۔ ہم اس سے آگے نہیں سوچتے کہ زیادہ لین والی سڑکوں اور پلوں پر گاڑی چلانا کتنا آرامدہ ہوگا یا پھر کس طرح غیر قانونی سرمائے کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہی پڑے گا۔

کچھ پالیسیاں اپنے آپ میں ہی غیر منصفانہ ہوتی ہیں چاہے انہیں لبرل نکتہ نظر سے دیکھیں یا تنقیدی نکتہ نظر سے۔ ایک منصفانہ پالیسی کو معاشرے میں پہلے سے مسائل کے شکار افراد کو مزید نقصان میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ محروم، دربدر اور جبر کے شکار انسان جو بے ضابطہ بستیوں میں روز کی کمائی پر زندگیاں گزار رہے ہیں، وہ نہ خراب ہونے والا ایسا سامان نہیں جسے ہم کولڈ اسٹوریج میں ڈال کر قوانین کے نفاذ کے فوائد کے حصول کا انتظار کرتے رہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 15 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Faraz Nov 22, 2018 02:55pm
Instead of supporting the lower class in their endeavor of earning for themselves; we in the name of "anti-encroachment drive" are depriving them of their basic source of Income without even thinking of providing them any ALTERNATE? How inhumane & shameful !!
KHAN Nov 22, 2018 11:19pm
کراچی میں تجاوازت کے خلاف آپریشن ایک اچھا قدم تھا مگر صدر میں تو نالے سے تجاوزات کا صفایا کردیا گیا مگر اسی نالے کو آگے اکبر روڈ موٹرسائیکل مارکیٹ پر ویسے ہی چھوڑ دیا گیا، آگے مزید اس پر تجاوزات موجود ہیں، بلاامتیاز و بلاتفریق آپریشن پر کسی کو اعتراض نہیں۔ اسی طرح اگر کراچی ضیا الدین روڈ کو دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ لگژری ہوٹل کے لیے سرکاری پارک میں زیرزمین پارکنگ، نالوں پر قبضہ کرکے پارکنگ اور سیکیورٹی کے نام پر پوری پوری تو نہیں مگر آدھی سڑک بند کرنا سب نظر آجائے گا۔