Dawnnews Television Logo

مشرف فیصلے کے ’پیراگراف 66‘ پر قانون دانوں کی بحث

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں سابق صدر کی لاش کو تین دن کے چوک پر لٹکانے کا حکم دیا۔
اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2019 04:25pm

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے انہیں ہر حال میں سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے کے پیراگراف 66 میں پرویز مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں 'ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے' کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی پیراگراف پر ملک بھر کے قانونی ماہرین کے درمیان زبردست بحث چھڑ گئی ہے۔

خصوصی عدالت کا فیصلہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے لکھا ہے جنہوں نے پرویز مشرف کو عوامی مقام پر پھانسی دینے کا حکم بھی دیا، تاہم لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر نے ان سے اختلاف کیا۔

قابل مذمت اور غیر قانونی، ریما عمر

عالمی سماجی تنظیم ’انٹرنیشنل کمیشن فار جریسٹس‘ (آئی سی جے) کی قانونی مشیر ریما عمر نے خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے آنے کے بعد تینوں ججز کے دیے گئے ریمارکس کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

انہوں نے ججز کی ریمارکس کے ذریعے پیغام دیا کہ ایک ہی کیس کے فیصلے پر تین ججز کی رائے کتنی مختلف ہے۔

ریما عمر نے ججز کی ریمارکس کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ جسٹس وقار سیٹھ کی جانب سے سزائے موت کا دیا گیا حکم غیر قانونی لگتا ہے۔

انہوں نے جسٹس عمر کی رائے کو مضبوط دلیل قرار دیا۔

انصاف بھیڑ نہیں ہے، بیریسٹر اسد رحیم خان

بیریسٹر اسد رحیم خان نے بھی تفصیلی فیصلے پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ ’قانون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ لاش کو تین تک لٹکایا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا جرم ایسے عمل کو فروغ دیتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ’انصاف بھیڑ نہیں ہے‘، ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں ماضی میں ہونے والی انتہا پسندی کا ذکر بھی کیا، انہوں نے بھی ٹوئٹ پر فیصلے کی پیراگراف 66 شیئر کی۔

نامناسب اور غیر معمولی، تیمور ملک

عالمی قوانین کے ماہر قانون دار تیمور ملک نے بھی خصوصی عدالت کے فیصلے کی پیراگراف 66 پر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ نامناسب اور غیر معمولی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ خصوصی عدالت کے مقاصد کیا تھے اور انہوں نے لاش کو ’ڈی چوک‘ پر لٹکانے کے حکم کو بد قسمتی قرار دیا۔

/

یہ کیا ہے، نگہت داد

قانون دان اور ڈیجیٹل رائٹس کارکن نگہت داد نے بھی خصوصی عدالت کے فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کیا اور انہوں نے پیراگراف 66 کو شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’یہ کیا ہے’؟

غیر ضروری ڈرامائی فیصلہ، زیڈ، ذوالقرنین ساہی

قانون دان زیڈ ذوالقرنین ساہی نے بھی خصوصی عدالت کے پیراگراف 66 پر حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ’غیر ضروری ڈرامائی فیصلہ ہے‘۔

قابل نفرت، حسان نیازی

قانون دان حسان نیازی نے بھی خصوصی عدالت کے پیراگراف 66 پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے قابل نفرت پیراگراف قرار دیا۔

انہوں نے لکھا کہ جسٹس شاہد کریم کا اختلاف قابل تعریف ہے، ساتھ ہی انہوں نے سوالیہ انداز میں لکھا کہ جسٹس وقار سیٹھ کے ذہن میں کیا چل رہا تھا؟

انہوں نے لکھا کہ قانون کی حکمرانی کی جانی چاہیے، کسی ہجوم کی نہیں۔

خوفناک و غیر ضروری، وقاص میر

نامور وکیل وقاص میر نے بھی پیراگراف 66 کو ’خوفناک و غیر ضروری‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے لگ رہا ہے اس جگہوں پر ہی غیر قانونی فیصلے ہو رہے ہیں جنہیں قانون و انصاف کی جگہ ہونے چاہیے تھا۔