Dawnnews Television Logo
—فوٹو: ڈان

وزارت اعلیٰ پنجاب کیلئے نمبر گیم کی رسہ کشی جاری

پنجاب اسمبلی میں اس وقت حمزہ شہباز کو 175 جبکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الہٰی کو 168 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
اپ ڈیٹ 30 جون 2022 08:00pm

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے 16 اپریل کو منعقدہ انتخاب میں منحرف ہونے والے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 اراکین کے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے حکم کے بعد نمبر گیم ایک مرتبہ پھر مرکز نگاہ بن گئی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 17 مئی کے فیصلے کا اطلاق کردیا ہے، جو منحرف اراکین اسمبلی کی حیثیت کے حوالے سے تھا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب: منحرف ارکان کے بغیر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63- اے کے تحت مخصوص 4 مواقع پر منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

یہ 4 مواقع وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد، آئینی ترمیمی بل اور منی بل پر ووٹنگ ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر 16 اپریل کو حمزہ شہباز نے 197 ووٹ حاصل کیے تھے، جن میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین، 4 آزاد اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن شامل تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 4 منحرف اراکین نے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے سے گریز کیا تھا۔

وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے لیے 371 کے ایوان میں 186 کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کل ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کو خارج کرنے کے بعد حمزہ شہباز کی اکثریت 172 رہ جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کا انتخاب: ’دیکھنا ہوگا آرٹیکل 63-اے کی تشریح ان حالات میں لاگو ہوگی یا نہیں؟‘

حمزہ شہباز ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق دوبارہ گنتی میں اکثریت دکھانے میں ناکام ہوتے ہیں تو آئین کے آرٹیکل 130 (4) کے تحت دوبارہ انتخاب ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں کسی امیدوار کو 186 ووٹوں کی اکثریت درکار نہیں ہوگی اور وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے صرف مخالف امیدوار کے مقابلے میں زیادہ ووٹ درکار ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟

انتخاب دوبارہ ہونے پر حمزہ شہباز بظاہر وزارت اعلیٰ برقرار رکھ پائیں گے کیونکہ انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ان 3 منحرف اراکین کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے جنہوں نے پہلے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا۔

مذکورہ اراکین صوبائی اسمبلی کی شمولیت سے حمزہ شہباز کی اکثریت 175 ہوجائے گی، جن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 163، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 7، 4 آزاد اراکین اور راہ حق پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پانچویں آزاد رکن چوہدری نثار علی خان ہیں، جنہوں نے تاحال خود اس سیاسی سرگرمی سے خود کو بالکل الگ رکھا ہوا ہے اور ان کی جانب سے کسی بھی امیدوار کو ووٹ دینے کا امکان نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے دوبارہ انتخاب ہو رہا ہے، فریقین تحفظات دور کرلیں، لاہور ہائیکورٹ

پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پاس اس وقت 168 اراکین ہیں، جن میں پی ٹی آئی کے 158 اور مسلم لیگ (ق) کے 10 اراکین شامل ہیں۔

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم دے رکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے 5 ارکان کا نوٹی فکیشن جاری کردیں، جنہوں نے حمزہ شہباز کے انتخاب کے موقع پر پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دیا تھا۔

ای سی پی نے تاحال عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا لیکن اگر یہ 5 اراکین کل کے سیشن سے پہلے نوٹیفائی ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کی تعداد بڑھ کر 173 ہوگی۔

اگر حالات ایسے ہی رہے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اپنے مخالف امیدوار پر دو ووٹوں کی برتری حاصل رہے گی اور حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

اطلاعات ہیں کہ وزارت اعلیٰ کے لیے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی اپنی جیت کے لیے چوہدری نثار کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر بھی ان کے پاس ایک ووٹ کم ہوگا۔

اگر حالات تبدیل نہیں ہوئے تو چوہدری پرویز الہٰی صرف ایک طریقے سے وزیراعلیٰ منتخب ہو سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر حمزہ شہباز کی طرف کھڑے امیدواروں میں سے کوئی ایک کل ان کو ووٹ دینے کے عمل کا حصہ نہ بنے۔

تاہم پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات 17 جولائی کو شیڈول ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی نااہلی کے بعد خالی ہوگئی تھیں اور اس انتخاب کے بعد ایوان کے اعداد و شمار ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوں گے۔