پاکستان

پولیو پر طالبان موقف میں تبدیلی؟

ٹی ٹی پی نے ہمدردوں کے بڑھتے دباؤ کے بعد خود کو پولیو رضاکاروں پر حالیہ کچھ حملوں سے الگ کر لیا۔

کنڑ: کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بظاہر مفلوج کر دینے والی پولیو بیماری سے متاثرہ ہمدردوں کا بڑھتا دباؤ محسوس کرتے ہوئے خود کو باقاعدہ طور پر خیبر پختونخوا اور کراچی میں پولیو رضاکاروں پر حالیہ کچھ حملوں سے الگ کر لیا۔

ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ وہ ان ہلاکتوں کی ذمہ دار نہیں، لیکن دوسری جانب تنظیم کے کچھ سینیئر ارکان پولیو رضاکاروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں اپنے کٹر اور شدت پسند ساتھیوں کے ملوث ہونے کے امکان کو خارج بھی نہیں قرار دیتے۔

درحقیقت، ٹی ٹی پی میں اب بھی ایسے سخت گیر عناصر موجود ہیں جو کھلے عام پولیو رضا کاروں کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتے ہیں۔

ان عناصر کا ماننا ہے کہ پولیو ویکسینیشن اصل میں 'سازشی مہم' یا 'یہودیوں کی سازش' ہے۔

ٹی ٹی پی کے ایک سینیئر رکن احسان اللہ احسان نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ ان کا گروپ 'اصولی طور پر' پولیو رضاکاروں کو نشانہ نہیں بنا رہا۔

تاہم یہ بیان اِس صورت حال کے بالکل برعکس نظر آتا ہے جہاں ایسے کسی بھی واقعے کے بعد تنظیم کا کوئی نامور رکن یا ملحقہ گروپ کھلے عام ذمہ داری قبول کر لیتا ہے۔

'ہم کچھ عرصے سے پولیو مہم کے معاملے پر تفصیل سے غور کرنے کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد مسلمان طبی ماہرین سے مشاورت بھی کر رہے تھے، جس کے بعد ہمارے کچھ شبہات دور ہوئے ہیں'۔

خیال رہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ٹی ٹی پی اور دوسرے علماء سازشی نظریات کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ ان کا دعوی تھا کہ 'پولیو ویکسینیشن مسلمان آبادی کے مقابلے میں اپنی تعداد بڑھانے کی یہودی سازش ہے'۔

بعض شدت پسند عناصر پولیو ورکرز پر 'مغربی ایجنٹ' ہونے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم کچھ معاملات پر اپنے باقاعدہ موقف میں تبدیل کی طرف جا رہی ہے، جس میں پولیو بھی شامل ہے۔

ٹی ٹی پی کے ماہنامہ کے ایڈیٹر مولانا صالح قسام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی قیادت بچوں کی معذوری جیسے معاملے کو دیکھ رہی۔

'اسلامی نقطہ نظر سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اب پولیو ویکسینیشن کے مزید مخالف نہیں رہے'۔

'تاہم شکیل آفریدی کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم پولیو رضاکاروں کو باآسانی کام کرنے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے'۔

ٹی ٹی پی کے دوسرے علماء بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے تنظیم کے ایک عالم مولوی خالد بلتی کا کہنا ہے کہ 'ہم پولیو ویکسینیشن کو غیر اسلامی قرار دینے کا نہیں سوچ رہے'۔

'ہم پولیو رضاکاروں کو اس وقت تک نشانہ بنانے کے قائل نہیں جب تک ان کے خلاف جاسوسی یا مجاہدین مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں'۔

تاہم اس سوچ کے حامل علماء کو ٹی ٹی پی کے اندر ہی مخالفت کا سامنا ہے۔

یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسلام آباد سے قبائلی علاقے منتقل ہونے والے ٹی ٹی پی مہمند کے سربراہ عمر خالد خراسانی کے ایک مشیر عمر انصار کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے تنظیم کے اندر کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو بے بنیاد سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، اور ان میں زیادہ تعداد لڑنے والے عام کارکنوں کی ہے۔

تاہم پولیو کے بارے میں شدت پسندوں میں آگاہی نہ ہونا ہی واحد چیلنج نہیں۔

'شہروں میں فعال ایسے کٹر شدت پسندوں کو کنٹرول کرنا آسان کام نہیں ، بالخصوص اس وقت جب وہ براہ راست ہماری کمان کے نیچے نہ ہوں'۔

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسی ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ ان میں سے بائیس ہزار بچوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔