سماجی کارکن کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پیر کے روز کراچی ویسٹ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج غلام مصطفٰے میمن کو ایک رکنی کمیشن کے طور پر مقرر کیا ، جو اورنگی پائلیٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کے قتل کی تحقیقات کریں گے۔
پروین رحمان کو گزشتہ سال مارچ کے دوران کراچی میں آفس سے گھر جاتے ہوئے راستے میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ جسے سول سوسائٹی کے ایک گروپ کے نمائندوں کی جانب سے جمع کرائی گئی ایک پٹیشن پر قائم کیا گیا تھا، ایک پولیس رپورٹ کو مسترد کردیا، جس میں کہا گیا تھا کہ پروین رحمان کے قتل میں طالبان رہنما قاری بلال کا ہاتھ تھا۔
ڈی آئی جی کراچی ویسٹ جاوید عالم اوڈھو نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ایک انکاؤنٹر کے دوران قاری بلال کی گرفتاری کے بعد تفتیش ملتوی کردی گئی تھیں۔ قاری بلال کو پروین رحمان کے قتل کے ایک دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قاری بلال نے تین دیگر ملزموں فرحان، تبلیغی اور طور خان کے ناموں کا بھی انکشاف کیا تھا، جو دوسرے جرائم میں بھی ملؤث تھے۔
بعد میں قاری بلال زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، لیکن دیگر مجرمین اب تک گرفتار نہیں کیے گئے تھے۔
اس قتل میں اس کی شمولیت کی تصدیق جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول سے کی گئی تھی، جو قاری بلال کے زیرِ استعمال تھیں۔
لیکن درخواست گزاروں کے وکیل محمد راحیل کامران شیخ نے اس رپورٹ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہی ایک رپورٹ پہلے بھی جمع کرائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس پروین رحمان کو قبضہ مافیا کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کی تفتیش کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔
جب عدالت نے پوچھا کہ کیا دوران تفتیش اس پہلو پر غور کیا گیا تھا، تو پولیس نے منفی میں جواب دیا۔
وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ ہائی کورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں اس قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔
یہ مشترکہ پٹیشن انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف، عقیلہ اسماعیل، عظمٰی نورانی، آصف حسن، انوار راشد، کوثر سعید، کرامت علی، زبیدہ مصطفٰی، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور سائبان کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
پروین رحمان اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہی تھیں، یہ تنظیم 1980ء کی دہائی میں اورنگی ٹاؤن کی کچی آبادی میں قائم کی گئی تھی، اس علاقے کو ایشیاء کی سب سے بڑی کچی آبادی سمجھا جاتا ہے۔
اس پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ پروین رحمان کا سفاکانہ قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی، غفلت اور من مانی کا ایک واضح ثبوت تھا۔
جو ایک بین الاقوامی سطح پر معروف سماجی کارکن کے قتل میں ملوث مجرموں کی فوری، منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور تسلی بخش طریقے سے تفتیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ”اس طرح جرائم پیشہ عناصر کی سنگدلی میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی ہوتی، جو عام شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس قتل سے کراچی کے غریب علاقوں میں سماجی کارکنوں کی طرف سے جاری امدادی سرگرمیوں کو بھی ایک شدید دھچکا لگا ہے۔“