Dawn News Television

شائع 15 مارچ 2014 10:30am

چودھری داخلہ، کریڈٹ کارڈ اور ابّا جی

بیروزگاری بھی عجب بلا ہے چاہے وە مجھ جیسے غریب فقیر کو دیکھنی پڑے یا پھر کسی طالبانی امیر کو۔

اسلام آباد میں ہوئے کچہری حملہ اور اُس کے بعد طالبانی ترجمان جن کے نام میں دو دو شاہد آتے ہیں کے اِن حملوں سے کئے گئے اظہارِلاتعلُقی سے دس سال پرانا اپنا وە وقت یاد آگیا جب میرے ابا نے بھی مجھ سے یوں ہی اظہارِلاتعلُقی کیا تھا۔

وقت بڑی ستم گر چیز ہے صاحب یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب میں بیروزگاری کے کچھ دِن دیکھ رہا تھا، کریڈٹ کارڈز پر ہم نے خوب عیاشی جوڑی تھی پر جب نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بقایا جات ادا کرنے لائق نہ رہے تو اِن ریکوری حضرات نےگھر کے چکر لگانا شروع کئے۔

ابا چونکہ اُس وقت تک قدرے شریف آدمی بن چُکے تھے اور میں اُتنا ہی آوارە اور ناہنجار جتنے شائد ابا اپنی جوانی میں رہے ہوں گے، بالکل اُسی طرح جیسے آج شاہد الله شاہد صاحب سدھر کے سیزفائر کا اعلان کرتے ہیں اور اُن کی اپنی ہی بغل بچہ احرارالہند حملہ فرماتی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر اُس حملے کی زمہ داری قبول فرماتی ہے۔

خیر زکر تھا ابا کے اظہارِلاتعلُقی کا تو جب ابا نے بینک والوں کو یہ کہہ دیا کہ ہمارا اِس شخص سے کوئی تعلق نہیں جس کے پیچھے پیچھے آپ یہاں تک آن پہنچے ہیں اور اِس سارے معاملے میں آپ اپنے طور ہی اُس سے نمٹ لیں، جہاں ملے، جس انداز سے چاہیں اپنی رقم وصول کر لیں لیکن برائے مہربانی آئندە ہمارے دروازے پر آنے کی زحمت نا فرمائیں۔

اتنی صاف اور کھری بات سُن کر بینک والے تو چکرا ہی گئے ساتھ ساتھ ہمارے بھی چودە طبق روشن ہوگئے کہ ابا نے اِس بے مُروتی کا اظہار آخر کیونکر فرمایا۔ جب یہ سب بات کر کے ابا حضور واپس گھر کے اندر تشریف لائے تو ہم نے بڑی معصومانہ اور سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا کہ ارے ابا یہ کیا ظلم فرمادیا اور ایسی بھی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ یوں دھواں دھار لاتعلُقی کی ضرورت پیش آگئی۔

جواباً ابا نے قدرے خونخوار نظروں سے جیسے ایک کریکر میری طرف دے مارا ہو اور پھر بنا کچھ کہے بہت ہی شفقت سے مجھ تک یہ بات بھی پہنچا گئے کہ باپ بیٹے کے رشتے پر محض ایک اظہارِلاتعلُقی سے کبھی کوئی فرق پڑا ہے نہ پڑے گا اور کچھ باتیں بس نظریہ ضرورت کے تحت کبھی کبھار کرنی پڑ جاتی ہیں، اُنہیں ہمیشہ دِل پہ لینا ضروری نہیں ہوتا۔

زکر آیا دل کا تو دل اُس وقت بے طرح رویا جب ایک بیٹے افراسیاب کو اپنے والد ایڈیشنل جج جناب رفاقت اعوان کے جنازے پر شدید دُکھی دیکھا مگر ساتھ ہی ساتھ اُس بچے کا عزم دیکھ کر میرا سر غرور سے اُونچا بھی ہوا، کیونکہ اگر ایک طرف جناب چودھری داخلہ جیسے حکومتی عہدیدار ہیں تو دوسری طرف افراسیاب جیسے باہمت نوجوان اور جواں سال فضا ملک کی والدە جیسی باہمت مائیں ہیں، جب تک اِن جیسا ایک بھی بہادر پاکستانی اِس سر زمین پر موجود ہیں اس ملک کے دشمنوں کو منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔

جہاں تک بات رہی ہمارے چودھری صاحب کی تو ہم نے سنا ہے کہ وە جدید خطوط پہ استوار کسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی بدولت کاغزوں کے ایک تھدے جسے عرفِ عام میں "قومی سلامتی پالیسی" کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے کے ذریعے عوام کو گولیوں اور بموں سے بچانے کی پلاننگ فرما رہے ہیں۔

حضور ویسے تو چھوٹا منہ اور بڑی بات مگر اگر کاغذوں کا یہ تھدّا اتنا ہی کارآمد ہے تو زرا خادمِ اعلٰی سے کہئے کہ اپنے بچوں کےاِرد گرد چلنے والی سیکیورٹی پروٹوکول کی گاڑیوں کا جمگھٹا ذرا ایک طرف کیجئے اور اُن کی گاڑی کو اِس کاغذی پالیسی کے آسرے لاہور کی سڑکوں پر گھومنے دیں۔ پھر دیکھئے وە باپ آپ سے لاتعلُقی کا اظہار کرتا ہے یا اُس سیکیورٹی پالیسی سے جس کے آسرے آپ ہر روز اسمبلی میں اپنی دُکان چمکاتے پھرتے ہیں۔

Read Comments