بیروزگاری بھی عجب بلا ہے چاہے وە مجھ جیسے غریب فقیر کو دیکھنی پڑے یا پھر کسی طالبانی امیر کو۔

اسلام آباد میں ہوئے کچہری حملہ اور اُس کے بعد طالبانی ترجمان جن کے نام میں دو دو شاہد آتے ہیں کے اِن حملوں سے کئے گئے اظہارِلاتعلُقی سے دس سال پرانا اپنا وە وقت یاد آگیا جب میرے ابا نے بھی مجھ سے یوں ہی اظہارِلاتعلُقی کیا تھا۔

وقت بڑی ستم گر چیز ہے صاحب یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب میں بیروزگاری کے کچھ دِن دیکھ رہا تھا، کریڈٹ کارڈز پر ہم نے خوب عیاشی جوڑی تھی پر جب نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے اور بقایا جات ادا کرنے لائق نہ رہے تو اِن ریکوری حضرات نےگھر کے چکر لگانا شروع کئے۔

ابا چونکہ اُس وقت تک قدرے شریف آدمی بن چُکے تھے اور میں اُتنا ہی آوارە اور ناہنجار جتنے شائد ابا اپنی جوانی میں رہے ہوں گے، بالکل اُسی طرح جیسے آج شاہد الله شاہد صاحب سدھر کے سیزفائر کا اعلان کرتے ہیں اور اُن کی اپنی ہی بغل بچہ احرارالہند حملہ فرماتی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر اُس حملے کی زمہ داری قبول فرماتی ہے۔

خیر زکر تھا ابا کے اظہارِلاتعلُقی کا تو جب ابا نے بینک والوں کو یہ کہہ دیا کہ ہمارا اِس شخص سے کوئی تعلق نہیں جس کے پیچھے پیچھے آپ یہاں تک آن پہنچے ہیں اور اِس سارے معاملے میں آپ اپنے طور ہی اُس سے نمٹ لیں، جہاں ملے، جس انداز سے چاہیں اپنی رقم وصول کر لیں لیکن برائے مہربانی آئندە ہمارے دروازے پر آنے کی زحمت نا فرمائیں۔

اتنی صاف اور کھری بات سُن کر بینک والے تو چکرا ہی گئے ساتھ ساتھ ہمارے بھی چودە طبق روشن ہوگئے کہ ابا نے اِس بے مُروتی کا اظہار آخر کیونکر فرمایا۔ جب یہ سب بات کر کے ابا حضور واپس گھر کے اندر تشریف لائے تو ہم نے بڑی معصومانہ اور سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا کہ ارے ابا یہ کیا ظلم فرمادیا اور ایسی بھی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ یوں دھواں دھار لاتعلُقی کی ضرورت پیش آگئی۔

جواباً ابا نے قدرے خونخوار نظروں سے جیسے ایک کریکر میری طرف دے مارا ہو اور پھر بنا کچھ کہے بہت ہی شفقت سے مجھ تک یہ بات بھی پہنچا گئے کہ باپ بیٹے کے رشتے پر محض ایک اظہارِلاتعلُقی سے کبھی کوئی فرق پڑا ہے نہ پڑے گا اور کچھ باتیں بس نظریہ ضرورت کے تحت کبھی کبھار کرنی پڑ جاتی ہیں، اُنہیں ہمیشہ دِل پہ لینا ضروری نہیں ہوتا۔

زکر آیا دل کا تو دل اُس وقت بے طرح رویا جب ایک بیٹے افراسیاب کو اپنے والد ایڈیشنل جج جناب رفاقت اعوان کے جنازے پر شدید دُکھی دیکھا مگر ساتھ ہی ساتھ اُس بچے کا عزم دیکھ کر میرا سر غرور سے اُونچا بھی ہوا، کیونکہ اگر ایک طرف جناب چودھری داخلہ جیسے حکومتی عہدیدار ہیں تو دوسری طرف افراسیاب جیسے باہمت نوجوان اور جواں سال فضا ملک کی والدە جیسی باہمت مائیں ہیں، جب تک اِن جیسا ایک بھی بہادر پاکستانی اِس سر زمین پر موجود ہیں اس ملک کے دشمنوں کو منہ کی ہی کھانی پڑے گی۔

جہاں تک بات رہی ہمارے چودھری صاحب کی تو ہم نے سنا ہے کہ وە جدید خطوط پہ استوار کسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی بدولت کاغزوں کے ایک تھدے جسے عرفِ عام میں "قومی سلامتی پالیسی" کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے کے ذریعے عوام کو گولیوں اور بموں سے بچانے کی پلاننگ فرما رہے ہیں۔

حضور ویسے تو چھوٹا منہ اور بڑی بات مگر اگر کاغذوں کا یہ تھدّا اتنا ہی کارآمد ہے تو زرا خادمِ اعلٰی سے کہئے کہ اپنے بچوں کےاِرد گرد چلنے والی سیکیورٹی پروٹوکول کی گاڑیوں کا جمگھٹا ذرا ایک طرف کیجئے اور اُن کی گاڑی کو اِس کاغذی پالیسی کے آسرے لاہور کی سڑکوں پر گھومنے دیں۔ پھر دیکھئے وە باپ آپ سے لاتعلُقی کا اظہار کرتا ہے یا اُس سیکیورٹی پالیسی سے جس کے آسرے آپ ہر روز اسمبلی میں اپنی دُکان چمکاتے پھرتے ہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

Shakir Merani Mar 15, 2014 08:05pm
khoob ...kamal ka lekha.......megar wo kune karin unkay pachay tu mehfooz hein.........ghareeb pakistani koi bat ni blasat goli say bach gaye to bhook say mar jain gay
Azeem Mar 16, 2014 01:44am
جناب اپ کا کالم بہت اچھا ہے مگر کھچائی ذرا کم ہے اور اصل فریقین جو کہ حکومت اور پاک فوج ہیں ان کے کردار کو آپ بھول ہی گئے ہیں آپ ذرا غور فرمائیے کیا اس حکومت کے آنے کے بعد سے آج دن تک طالبان کی سرکاری سرگرمیوں میں کچھ کمی ہو ئی ہے کیا اور بھلا ہو گی بھی کیوں؟ کیا انھوں نے اس حکومتئ پارٹی کو انتخابات میں اس لئیے تحفط فراہم کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے ہی محافظوں سے رشتہ توڑ لےگی ان کو تو اس لیئے تحفظ فراہم کیا گیا تھا کہ حکومت میں آکر اس احسان کا بدلہ اتارے گی اور طالبان کی اتنی لمبی جدوجہد کیا اس لئیے تھی کہ وہ چند جھوٹے دانشوروں کے کہنے پر وہ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ کیا واقعی پاک فوج کو اب طالبان کی ضرورت نہیں رہی؟ ایسا بالکل نہی ہے بات تو صرف فیس سیونگ کی ہے حکومت وقت صرف اپنی فیس سیونگ کر رہی ہےاس کے علاوہ کچھ نہی وہ خاص خطہ پر اپنی حکومت چاہ رہہیں جو وہ ضرور حاصل کر لیں گے
Al Beruni Al Nijaad Mar 16, 2014 04:06pm
aap k is Kalm mai buhat si batien adhuri hain, maslan " aap ne bola baap betay ka rishta kataee nazuk nahi hai. per mai yeh pouchta hun jab ek he ghar k do bache madd e muqabil ajaen or walid sahib apne powerful bachy ko support karen. tab kamzor bache ki situation kya hoti hai? woh situation jo hai aaj talibaan wohi compose kar rahe hai, kyun k yeh kiya chahte hain woh koi sunn nahi raha, pakistan in k region mai ghuss kar inko takleef diay jaa raha hai jab k pakistan bante waqt jo muhaida hua tha Fata se aaj us per kitna laye amal ho raha hai? yehi woh qaum hai jis se qaid e azam ne muhaida kiya tha k aap apne policy khud banaen pakistan ka is mai koi amal dhakhal nahi to aaj aisa kyun?
Al Beruni Al Nijaad Mar 16, 2014 04:08pm
bekaar kaalum hai ek dum bakwas :P
Khalid JIbran Mar 16, 2014 04:10pm
very well said Arsalan Khan,walid sahab ki majburi ko kya khub qalamband kya hy,is chupey howe rishtey se to puri qaum ko bewaquf bnaya e ja ra hy aur ap jese kayi log blogs likh b dien to koi khas joun nahi rengney wali is qaum k kan pe,ye becharey bht bholey hyn aur so rhe hy,isey ap jaga ni skte hazrat....... in muzakraat ki misal to esi hy k ap k ghar daaku ghus ayen aur adha maal lut b lien to ap unhe rokien aur kahen k bqi k adhey pe muzakraat hunge k is m se apka kitna aur hamara kitna
عمران علی Mar 17, 2014 09:43pm
بھاءی کریڈٹ کارڈ کی وجہ سے ابا کا اظہارِ لا تعلقی تو ہماری سمجھ آتا ہے لیکن ڈبل شاہد صاحب کا احرار الہند سے لا تعلقی سمجھ نہیں آرہا۔