Dawn News Television

شائع 25 مارچ 2014 07:51am

تمام توہین آمیز مواد کو بلاک کرنا ممکن نہیں: پی ٹی اے

اسلام آباد: حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر قابلِ اعتراض مواد کو روکنے کے لیے کوئی ٹیکنیکل طریقہ موجود نہیں ہے۔

ایک رکن اسمبلی کے سوال کے جواب میں پیر کے روز پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اپنے تحریری جواب میں قومی اسمبلی کو مطلع کیا کہ اس نے انٹرنیٹ پر قابلِ اعتراض مواد کو تلاش کیا تھا، اور ایسی اکتیس ہزار آٹھ سو انیس ویب سائٹس کو بلاک کردیا تھا، لیکن پی ٹی اے نے یہ بھی کہا کہ ان تمام ویب سائٹس کو فلٹر کرنا ممکن نہیں ہے، جہاں توہین آمیز مواد موجود ہے۔

مسلم لیگ نون کی رکن قومی اسمبلی بیگم طاہرہ بخاری نے پی ٹی اے سے ایک سوال کیا تھا کہ کیا یوٹیوب کو کھولنے کی کسی تجویز پرغور کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ وڈیو شیئرنگ کی اس ویب سائٹ پر ستمبر 2012ء میں پابندی لگائی گئی تھی۔

کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے یاد دلایا کہ ستمبر 2012ء میں توہین آمیز فلم ’’انوسنس آف مسلم‘‘ کے اپ لوڈ کیے جانے کے بعد اس وقت کی حکومت نے اس ویب سائٹ کو بلاک کردیا تھا، اس لیے کہ یوٹیوب کے مالک ادارے گوگل نے اس فلم کو سائٹ سے ہٹانے سے انکار کردیا تھا۔

اس سے پیشتر کئی انٹرویوز میں پی ٹی اے کے حکام نے کہا تھا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے حکومت سے بارہا یہ بات کہی ہے کہ یہاں تک کہ اگر لاکھوں ڈالرز کے فلٹرز کا بھی استعمال کرکے بھی ٹیکنیکلی طور پریہ ممکن نہیں ہے کہ توہین آمیز فلموں کو بلاک کیا جاسکے۔

پی ٹی اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے دسمبر 2012ء میں احتیاطی اقدامات کرنے کے بعد یوٹیوب کو کھول دیا تھا، لیکن چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس کو دوبارہ بند کرنا پڑا تھا، اس لیے کہ میڈیا کی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ اس ویب سائٹ پر وہ فلم اب بھی موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے بہترین حل وہی ہے، جو دوسرے مسلم ملکوں نے اپنایا ہوا ہے، جہاں خودکار انتباہی نوٹس کے ذریعے صارف کو مطلع کردیا جاتا ہے کہ وہ جس مواد کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہےاس کی نوعیت کیا ہے۔ پاکستان میں بھی انٹرنیٹ پر اس طریقے سے متنبّہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ ’’اگرچہ پی ٹی اے نے یوٹیوب پر بین لگادیا ہے، اس کے باوجود کمپیوٹر استعمال کرنے والے غیرمحفوظ سائٹس کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘

Read Comments