Dawn News Television

شائع 09 اگست 2014 10:45am

مذہب اور برداشت

رمضان میں میرے ایک دوست مجھ سے ملنے آئے- میں نے ان سے پوچھا وہ کچھ کھانا یا پینا چاہینگے- میں سمجھتا ہوں کہ میزبان کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ میں ان سے پوچھتا- میری بات سن کر انھیں تعجب ہوا اور انھوں نے مجھے پانی پلانے کے لئے کہا اور بتایا کہ اگرچہ انھیں پیاس لگ رہی تھی کیونکہ وہ بڑی دور سے دھوپ میں چلتے آرہے تھے لیکن پانی مانگتے ہوئے انھین اچھا نہیں لگ رہا تھا- وہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ رمضان کے مہینہ میں پانی مانگیں تو شائد مجھے اچھا نہ لگے-

میں نے اپنے ایک دوست کو یہ واقعہ سنایا- مقصد یہ تھا کہ میں انھیں بتاوں کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کس حد تک سرایت کرگئی ہے کہ ہمیں اپنے رشتوں میں بھی برداشت کی توقع نہیں رہی-

میرے دوست ایک شو روم کے مالک ہیں اور انھوں نے مجھے بتایا کہ حال ہی میں انھیں بھی ایک ایسی ہی صورت حال سے گزرنا پڑا تھا- انھیں پتہ چلا کہ ایک گاہک جو ان کے شو روم آیا تھا وہ عیسائی تھا- انھوں نے اپنے سیلز مین سے کہا کہ وہ ان کے لئے شربت منگوائے-

گاہک نے انھیں بتایا کہ گو کہ سخت گرمی تھی لیکن ڈر کی وجہ سے وہ کچھ مانگ نہیں رہا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمان اس کو پسند نہیں کرینگے-

گزشتہ سال رمضان میں، ایک گارڈ کو جسے جولائی کی سخت گرمی میں آٹھ سے دس گھنٹوں تک کھڑا رہ کر ڈیوٹی کرنی ہوتی تھی ایک پرجوش ہجوم نے بری طرح مارا پیٹا کیونکہ اس نے روزہ نہیں رکھا تھا اور ڈیوٹی کے دوران پانی پینے کی کوشش کررہا تھا-

کیا مارنے پیٹنے کی وجہ سے ان لوگوں کا ایمان پکا ہوگیا تھا جو اسے پیٹ رہے تھے یا ان لوگوں کا جو اسے پٹتا دیکھ رہے تھے یا ان لوگوں کا جنھوں نے یہ خبر پڑھی ہوگی؟ مجھ پر تو اسکا الٹا اثر ہوا- مجھے شرم آرہی تھی-

میرے ایک استاد کے گھر میں ایک عیسائی ملازم ہے- وہ رمضان کے دنوں میں اسکے لئے خود اپنے ہاتھوں سے روٹی بناتے ہیں- انھیں پسند نہیں کہ ان کا ملازم دن بھر بھوکا رہے اور نہ ہی یہ بات پسند ہے کہ وہ کسی اور سے اس کے لئے روٹی بنانے کو کہیں اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنی ذمہ داری ان کے سر تھوپ رہے ہیں-

رمضان کا احترام کب آمرانہ شکل، سزا اور عدم برداشت میں تبدیل ہوگیا؟ مہمان کی تواضع ضروری ہے- ان کے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے سے میرے مذہبی جذبات کا کیا تعلق ہے؟ ہم خود کو اتنا کمزور کیوں سمجھتے ہیں، ہم کیوں اتنے خوفزدہ ہیں کہ رمضان میں دن کے وقت ہم سارے ریسٹوران بند کردیتے ہیں؟ کیا اتنا کافی نہیں کہ ہم اپنے روزوں کی فکر کریں اور دوسروں کو اپنی فکر کرنے کے لئے چھوڑ دیں؟

غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر ہمارا غصہ بالکل جائز ہے- لیکن جب پاکستان میں احمدیوں کو یا شیعہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو ہمیں ویسا غصہ نہی آتا- صاف ظاہر ہے کہ ہم اپنے مذہب کو جس طرح پیش کررہے ہیں یا ہم جو قوانین بنا رہے ہیں یا نافذ کررہے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہے-

حال ہی میں چار احمدیوں کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر اپنے مذہب کا پرچار کررہے تھے- لیکن اس دوران، ٹیلی ویژن پر ملک کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی پارٹیوں اور انکی ضمنی پارٹیوں کی جانب سے ہونیوالے تبلیغی پروگراموں سے مشکل ہی سے چھٹکارا ملتا ہے-

اس کا تعلق ہمارے اس خیال سے ہے کہ ہم نے اپنی قوم اور شہریت کا نظریہ کس طرح تشکیل دیا ہے- اس کا تعلق میرے اس گزشتہ کالم سے بھی ہے جس میں میں نے سیاست میں مذہب کے رول پر روشنی ڈالی ہے-

صرف مذہب کو کسی قوم کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا- قران سے بھی یہ بات واضح ہے- تمام پیغمبروں نے، اپنی قوم کی جانب سے ہونیوالی مخالفتوں کے باوجود انھیں اپنی قوم قرار دیا تھا-

عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اگر قوم کی بنیاد کسی مذہب پر ایمان لانے سے ہوتی تو پیغمبر اپنی قوم کے لوگوں کو اس وقت تک اپنی قوم نہ کہتے جب تک کہ وہ ان کی بتائی ہوئی سچائیوں پر ایمان نہ لاتے-

ہم مذہب ہونا ایک مشترکہ شناخت کی بنیاد تو ہوسکتا ہے لیکن صرف یہی عنصر ایک قوم کی بنیاد نہیں ہوسکتا: کلچر، زبان،آباؤ اجداد، جغرافیائی محل وقوع اور اس کے علاوہ بھی دوسری بہت سی مشترکہ خصوصیات ایک قوم کی بنیاد ہوسکتی ہیں-

ایک ایسے معاشرے میں جہاں کی ثقافت میں رنگا رنگی ہو، جہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہوں یا جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہوں ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت دینے کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں-

کیا اس بنیاد پر دو قومی نظریے کے بارے میں سوال اٹھایا جاسکتا ہے؟ یقیناً- لیکن یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور پاکستانیوں کو چاہیئے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اس پر غور کریں- اس کالم میں میں اس مسئلہ پر مزید کچھ نہیں کہونگا-

ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے- ہم نے نہ صرف ایسے قوانین بنائے ہیں جن میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں امتیاز برتا جاتا ہے، انھیں عبادت کرنے اور تبلیغ کرنے کے جو حقوق دیئے گئے ہیں ان میں بھی تفریق موجود ہے اور عائلی اور ذاتی آزادی وغیرہ کے جو قوانین مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اس میں بھی فرق ہے، بلکہ ہم نے بحیثیت قوم اپنے طرز فکر کو بھی داخلی معاملہ بنا دیا ہے جس کا ثبوت ہماری روزمرہ کی زندگی میں ملتا ہے-

حال ہی میں، پارلیمنٹ کے ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی کہ الکحل کو عیسائیوں کے لئے بھی ممنوع قرار دیا جائے- اگر وہ اخلاقی بنیاد پر دلیل دیتے تو اس مسئلہ پر غور و فکر کیا جاسکتا تھا- لیکن ان کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ مسلمانوں کے لئے شراب نوشی ممنوع ہے اس لیئے ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے لئے بھی اسے ممنوع قرار دیا جائے-

یہ دلیل بار بار دی جاتی ہے- لیکن دلیل مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ یہ ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ نے اسے پیش کرنا مناسب خیال کیا؛ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے شہری اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں- اور وقت کے ساتھ ساتھ اس سوچ کے ساتھ اختلاف کرنے کی گنجائش روز بروز کم ہوتی جارہی ہے-

کیا یہ سوچ ختم ہوسکتی ہے؟

اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں رہا اور ہم عدم برداشت اور مذہبی تعصب کی راہ پر مسلسل بڑھتے جارہے ہیں- لیکن ہم نے جو راہ اختیار کرلی ہے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اس میں اصلاح کریں؟ کیا اس مسئلہ پر عوامی بحث نہیں ہونی چاہیئے اور یہ دیکھیں کہ آیا اس غالب سوچ کو کسی نہ کسی طور پر چیلنج کرنا ممکن ہے؟ یہ محض ایک کوشش ہی ہوگی خواہ کتنی ہی ناکافی کیوں نہ ہو-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: سیدہ صالحہ

Read Comments