Dawn News Television

شائع 22 اگست 2014 01:41pm

گینگ ریپ ’معمولی‘ قرار دینے پر انڈین وزیر کے خلاف غم و غصے کی لہر

نئی دہلی: دسمبر 2012ء میں دہلی میں ہوئے ایک گینگ ریپ کے حوالے سے دیے گئے ایک مرکزی وزیر کے بیان پر تنازعہ اب شدت اختیار کرگیا ہے۔

ہندوستان کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے سیاحت کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’دہلی میں ریپ کے ایک معمولی سے واقعہ کو دنیا بھر میں شہرت دی گئی، جس وجہ سے سیاحت کے شعبے میں ملک کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔‘‘

یاد رہے کہ نئی دہلی میں 16 دسمبر 2012ء کو ایک طالبہ کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے گینگ ریپ کیا گیا تھا، کئی دنوں تک جدوجہد کرنے کے بعد متاثرہ لڑکی نے دم توڑ دیا تھا۔

اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دہلی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں ہندوستان کی سول سوسائٹی، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کی جانب سے کئی دنوں تک زبردست مظاہرے کیے گئے تھے۔

بین الاقوامی میڈیا میں بھی یہ معاملہ کئی دنوں تک شہہ سرخیوں کی زینت بنا رہا اور اس واقعہ کے حوالے سے ہندوستان میں خواتین کے تحفظ پر سوالات بھی اٹھائے گئے۔

گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی طالبہ کے والد نے آج ہندوستان کے سینئر وزیر کے بیان پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس کو معمولی واقعہ قرار دے کر نفرت آمیز حملہ کیا ہے۔

دوسری جانب کانگریس نے اس معاملے پر ارون جیٹلی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔

عالمی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق ارون جیٹلی کے اس بیان کی سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں کے ساتھ ساتھ متاثرہ طالبہ کے والدین نے شدید مذمت کی ہے۔

متاثرہ لڑکی کے والد جن کا نام قانونی وجوہات کی وجہ سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’جو کچھ بھی انہوں نے کہا بہت غلط ہے۔ میں اپنے جذبات کا الفاظ کے ذریعے اظہار نہیں کرسکتا کہ ان الفاظ سے ہمیں کس قدر تکلیف پہنچی ہے۔‘‘

کانگریس کی رہنما شوبھا اوجھا نے اس بیان کو پاگل پن قرار دیتے ہوئے ارون جیٹلی سے ملک کی خواتین سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے ایک سرگرم رہنما کویتا کرشنن نے کہا کہ ’’کوئی بھی ریپ چھوٹا یا معمولی نہیں ہوتا، ہر ریپ شرمناک ہے، اس لیے کہ یہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے نہیں کہ یہ سیاحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔‘‘

Read Comments