Dawn News Television

شائع 25 اگست 2014 02:20pm

!ٹی وی پر انقلاب دیکھنا مشکل کام

ایک انقلاب کے قائد ایک مولانا صاحب ہیں، جبکہ دوسرے انقلاب کی قیادت ایک کرکٹر کر رہے ہیں۔ اب دونوں بیٹھے ہوئے ہیں، اور حکومت کے ساتھ سر لڑا رہے ہیں۔

ٹی وی پر دونوں دھرنوں کو دیکھنا ایک محنت طلب کام ہے۔

سب سے پہلے تو یہ، کہ ایک جیسے مطالبات اور ایجنڈوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔

یہ مٹھی بھر پاکستانیوں کے لیے آسان ہوگا، جن میں اکثریت ٹی وی اینکرز کی ہو گی، جو طاہر القادری اور عمران خان دونوں کے مطالبات توجہ سے سنتے ہیں۔ لیکن ہم جیسے دوسرے لوگوں کے لیے جن کی یادداشت کمزور ہے، انہیں ان دونوں جماعتوں کے شکووں کو الگ الگ رکھنے میں تھوڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ پاکستان تحریک انصاف کا ہے، جبکہ معصوم کارکنوں کے قتل عام کا اشو پاکستان عوامی تحریک کا ہے۔

دونوں جماعتوں کے کچھ سنجیدہ، اور مضبوط خدشات ہیں، لیکن مارچ کو دیکھتے رہنے سے ان دوسرے مسائل پر سے توجہ ہٹ رہی ہے، جو زیادہ شرمناک ہیں اور جن پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔

افواہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت مارچ کی مسلسل اور پر فریب کوریج دیکھنے کے چکّر میں اپنی معمول کی زندگی، جس میں کام، ٹیکسٹ میسجنگ، اور اپنے باسز اور سسرالیوں کی شکایات کرنے جیسے کام شامل ہیں، معطل کر چکی ہے۔

وہ دس دن سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے، سکرین پر نظریں جمائے بڑی تبدیلی کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔

سنا گیا ہے کہ کچھ لوگ تو اچانک کھانے کے دوران ٹی وی پر قومی ترانہ نشر ہوتے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں، یا پھر کسی موقع پر انتہائی خوشی و مسرّت کے ساتھ تالیاں بجانے لگتے ہیں، جس سے ان کے گھر والے پریشان ہوجاتے ہیں۔

اس میں حیرت کی بات نہیں ہے، کہ جیسے جیسے انقلاب کا سفر اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو رہا ہے، ویسے ویسے باہمی رشتے مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں، شوہر بیویوں پر، بچے والدین پر، بہنیں بھائیوں پر، اب غصے کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔

مارچ کے شرکاء کے پاس تو بھلے ہی باتھ روم کی سہولت موجود نہیں ہے، لیکن گھر پر مارچ دیکھنے والے کچھ قدم چل کر باتھ روم جانے سے بھی گریزاں ہیں، کہ کہیں ان کے ٹی وی کے سامنے سے ہٹتے ہی انقلاب نہ آجائے۔

یہ ہچکچاہٹ قدرتی ہے۔ آخر تبدیلی کے لیے اتنے دنوں، گھنٹوں، اور منٹوں تک انتظار کیا ہے، کالز اٹینڈ نہیں کیں، ای میلز کے جواب نہیں دیے، صرف اس لیے کہ کہیں انقلاب کی گھڑی چھوٹ نہ جائے۔

کچھ اور صورتحال جو اس مارچ سے پیدا ہوئی ہیں، وہ کھانے پینے سے متعلق ہیں۔ ایک دوست نے تو مارچ دیکھنے کے لیے کھانا بلکل چھوڑ ہی دیا ہے، جس سے شاید اسے اپنا وزن کئی پونڈ کم کرنے میں مدد ملے۔

ایک اور دوست نے مارچ کی فیشن کلیکشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کپڑے اتنی اچھی کوالٹی کے ہوں گے، کہ اگلے دھرنے کی پوری مدّت تک کام دے جائیں گے، جبکہ ان کے رنگ بھی با آسانی تبدیل کیے جا سکیں گے، تاکہ کسی دوسری جماعت کے دھرنے میں کام آجائیں۔

مقررین کی تقریروں کا مواد، ان کے شکوے، سب سنجیدہ ہیں۔ مارے جانے والے کارکنوں کا، یا انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل کو جب ٹی وی پر اٹھایا جاتا ہے، تو بیچ بیچ میں شیمپو، موبائل فون، اور باقی سب چیزوں کے اشتہارات بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ پورا معاملہ ختم ہونے کے بعد جب زندگی معمول پر لوٹے گی، تو یہی کچھ تو خریدنا ہے۔

اب جب کے ٹی وی چینلز، اور تھکے ہارے اینکر پرسنز دو مارچوں کے درمیان جھول رہے ہیں، تو سکرینز کے سامنے بیٹھے ناظرین کے ذہنوں میں کنفیوژن جنم لے رہی ہے۔

کیا زندگی معطل رہنی چاہیے؟ یا اسے جاری رہنا چاہیے؟

کیا یہ واقعی جشن منانے کا وقت ہے جیسے عمران خان کہتے ہیں؟

کیا کرپشن کچھ ہی دن میں ختم ہو جائے گی جیسا کہ طاہر القادری وعدہ کر رہے ہیں؟

مارچ کو دیکھنے، سننے، حیرت زدہ، اور مشکلیں جھیلنے والے لاکھوں ناظرین کے ذہنوں میں بس سوالات ہی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری: رافعہ زکریا

Read Comments