Dawn News Television

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2014 12:51pm

اگر یہ گولی نہیں تو پھر کیا ہے؟

اسلام آباد: محمد یوسف کو یقین ہے کہ انہیں ایک جان لیوا گولی سے نشانہ بنایا گیا۔ وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز (پمز) کے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے اور انہوں نے ایکس رے کی شیٹ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی، اس شیٹ پر موجود ایک سفید نشان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا ’’آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

اس سوال کا حتمی جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جب تک یہ چیز جسم سے باہر نکالی نہیں جاتی، اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ گولی ہے یا نہیں۔

یوسف ہی واحد زخمی نہیں ہیں، جنہوں نے ہسپتال کے حکام اور صحافیوں کو حیران کردیا ہے۔ شاہراہِ دستور پر جاری تصادم کے بعد پمز میں لائے جانے والے کئی زخمیوں کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا وہ ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہوئے تھے۔

پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ ربڑ کی گولیاں جلد کے اندر نہیں داخل نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کی وجہ سے آر پار ہونے والے زخم ظاہر ہوتے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بندوق کی گولی کی علامت ہے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا ’’ان مریضوں کے جسم کے اندر موجود بیرونی شئے کے بارے میں صرف فارنسک تجزیہ سے ہی کسی چیز کا تعین کیا جاسکے گا، کہ یہ زخم جان لیوا گولیوں کے باعث آئے ہیں، یا نہیں۔‘‘

تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دو افراد جو ہسپتال میں اتوار کے روز اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے تھے، انہیں گہرے زخم آئے تھے۔

سرکاری طور پر اس بارے میں تصدیق کی گئی تھی کہ غلام عادل محمود کے جسم میں ایک بیرونی شئے ان کے معدے کی جانب سے داخل ہوئی اور دوسری جانب سے باہر نکل گئی، اس بناء پر وہ ہلاک ہوگئے۔ جبکہ رفیع اللہ کی موت کا سبب یہ تھا کہ ایک بیرونی شئے ان کی کھوپڑی میں گھس گیا تھا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے زیادہ تر آزاد ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ ربڑ کی کوئی شئے ایکس رے کے اسکین میں غیرواضح اور دھندلی دکھائی دیتی ہے اور یوسف کے ایکسرے میں نظرآنے والی شئے کی مانند واضح نظر نہیں آتی۔

جبکہ ایکس رے میں یہ شئے گولی کی مانند واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ڈان سے بات کرنے والے ہر ایک ڈاکٹر نے کہا کہ جب تک اس شئے کو باہر نکال نہیں دیا جاتا اور اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا وہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے سیکریٹریٔ داخلہ شاہد خان سے بات کی تھی کہ کس قسم کا اسلحہ استعمال کیا جارہا تھا، تاکہ اس کے مطابق علاج کیا جائے۔

ان کے مطابق سیکریٹریٔ داخلہ نے کہا کہ پولیس کی جانب سے جان لیوا گولیاں استعمال نہیں کی جارہی تھیں۔

امید ہے کہ یہ اسرار پیر کے روز حل ہوجائےگا، جب ڈاکٹرز یوسف کے گھٹنے کا آپریشن کرکے اس بیرونی شئے کو باہر نکال لیں گے۔

اس تیئس سالہ نوجوان کے دائیں کندھے اور ان کے سینے پر بھی ربڑ کی تین گولیاں لگی ہیں اور ان کے پورے جسم پر زخم آئے ہیں۔

یوسف نے حال ہی میں مظاہرین کے ساتھ شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ تقریباً چار سال سے پنجاب پولیس میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، انہوں نے اپنی ملازمت کو خیرباد کہا اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی، ان کا خیال تھا کہ طاہرالقادری کے نظریات نے انہیں زیادہ حساس بنادیا ہے۔

اس پُراسرار ’’بیرونی شئے‘‘ کا ایک اور نشانہ بننے والے اوکاڑہ کے رہائشی عبدالماجد بھی ہیں۔ ان کی ٹانگ کو نشانہ بنایا گیا تھا، اور اس پُراسرار شئے کے باعث ان کی پنڈلی ٹوٹ گئی تھی۔

اپنے خود آلود کپڑوں کے ساتھ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے اس پچیس سالہ نوجوان نے بھی ڈان کو اپنا ایکس رے دکھایا۔ اس ایکس رے کے اسکین پر ایک چمکدار شئے کو دیکھا جاسکتا تھا، جو اس کے جسم میں موجود تھی۔

کراچی سے آنے والے چوبیس برس کے گلفام بھی اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ اس کو ایک جان لیوا گولی سے نشانہ بنایا گیا۔

ان کے ایکس رے اسکین میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک بیرونی شئے ان کی ران کی ہڈی سے ٹکرائی اور اس کو چھ ٹکڑوں میں تقسیم کردیا، اور ان کی گھٹنے میں سرائیت ایک بیرونی شئے کو دیکھا جاسکتا ہے۔

عرفان مشتاق کی حالت بدتر ہے، ان کا جبڑا اور تین دانت اسی طرح کی ایک ’بیرونی شئے‘ کی وجہ سے ٹوٹ گئے ہیں۔ مشتاق کے زخم بھی پُراسرار طور پر اس سے ملتے جلتے ہیں، جس طرح کے آرپار زخم جان لیوا اسلحے کے استعمال سے آتے ہیں۔

اپنی دوسری سرجری کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے ڈان کو بتایا ’’یہ ایک گولی تھی۔‘‘

ہسپتال کے منتظم ڈاکٹر جاوید اکرم نے اس کی تحقیقات کے بارے میں بتایا کہ ’’ہسپتال نے ایک فارنسک ماہر ڈاکٹر ناصر کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس طرح کے متاثرین کے تمام ایکس ریز اور سی ٹی اسکینز کو اس تفتیش کا حصہ بنایا جائے گا۔‘‘

تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت ہسپتال کی ترجیح ہوگی کہ ایمرجنسی کے شعبے میں لائے جانے والے زخمیوں کا علاج کیا جائے۔

Read Comments