Dawn News Television

شائع 02 ستمبر 2014 10:52am

مظاہرین کی جانب سے پولیس فورس کو نفسیاتی دھچکا

اسلام آباد: شاہراہ دستور پر حکومت مخالف مظاہرین کے ساتھ ان کے تصادم کے دوران سٹی پولیس کو اس وقت ایک نفسیاتی دھچکا پہنچا، جب ان کے کمانڈر ایس ایس پی آپریشن عصمت اللہ جونیجو ریڈزون میں مظاہرین سے جھڑپ کے بعد شدید زخمی ہوگئے اور انہیں ہسپتال پہنچادیا گیا۔

پولی کلینک کے نام سے معروف فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے ڈان کو رازدارانہ انداز میں بتایا کہ اس افسر کو صبح گیارہ بجے جب اس ہسپتال میں لایا گیا تو ان کے پورے جسم پر اور خاص طور پر سر کے پیچھے شدید ضربوں کے نشانات اور سوجن نمایاں تھی۔

انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بتایا کہ ’’ان کے سر کی پشت پر لگنے والی شدید ضرب خاص طور پر پریشان کن ہے، جس کی وجہ سے انہیں تین مرتبہ الٹی ہوئی تھی۔‘‘

مذکورہ ڈاکٹر نے کہا ’’ایمرجنسی میں ابتدائی طبّی امداد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی فورس کی کارروائی میں دوبارہ شامل ہونا چاہتے تھے، لیکن وہ گر کر بے ہوش ہوگئے۔‘‘

اس آفیسر کو پولی کلینک نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) بھیج دیا، جہاں ان کا سی ٹی اسکین کیا گیا اور انہیں چوبیس گھنٹوں کے لیے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل کردیا گیا۔

پمز کے ترجمان ڈاکٹر الطاف حسین نے بعد میں بتایا کہ ایس ایس پی جونیجو کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا ’’سی ٹی اسکین کی رپورٹ بہتر ہے، ان کے جسم میں کوئی فریکچر نہیں ہے۔لیکن انہیں کم از کم چوبیس گھنٹوں کے لیے ہسپتال میں رہنا پڑے گا۔‘‘

ان کے ہسپتال میں داخلے سے ان کی فورس کو نفسیاتی دھچکا لگا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اپنی فورس کو ریڈلائنز پر حوصلہ افزاء قیادت فراہم کی تھی، حکومت کی جانب سے مقرر کیے گئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اب تک مظاہرین پر قابو نہیں پاسکے ہیں۔

پچھلے اختتامِ ہفتہ پر پولیس کی جانب سے آنسوگیس کے شیلز اور ربڑ کی گولیاں فائر کیے جانے کے بعد پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے مظاہرین کہیں زیادہ جنگجو بن گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بڑی تعداد زخمی ہوئی ہے۔

ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو کو ان کی بطور ایک فعال افسر کی ساکھ کی وجہ سے انہیں ترقی دے کر اتوار کی رات آپریشنل ٹاسک دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے ان کے دو سینئر افسران نے یہ ٹاسک لینے سے انکار کردیا تھا۔

صرف چند گھنٹوں کے بعد ہی ان کی کمان کو ایک سنگین دھچکے کا سامنا کرنا پڑا، جب پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے مظاہرین قانون نافذ کرنے والوں کی حد میں داخل ہوگئے اور پیر کی صبح ساڑھے دس بجے کے قریب پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کردیا۔

ایس ایس پی جونیجو مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے جوانوں کی قیادت کرنے جب موقع پر پہنچے تو انہوں نے حفاظتی لباس بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔

وہ اپنے اسکواڈ کے ایک درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں کے قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ڈنڈا بردار مظاہرین نے انہیں گھیرے میں لے لیااور ان پر ڈنڈے برسانے شروع کردیے، اس وقت صرف ان کے ذاتی آپریٹر سجاد ان کے ساتھ تھے۔

پمز کے ترجمان ڈاکٹر الطاف حسین نے بتایا کہ ’’سجاد بھی جسم اور سر پر بہت سے زخموں کی وجہ سے پمز کے سرجیکل وارڈ میں داخل ہے۔ اس کی حالت بہتر اور خطرے سے باہر ہے۔‘‘

پمز کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کی رات جب پولیس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی شروع کی تو اس کے بعد سے ہسپتال میں لائے جانے والے زخمی مظاہرین کی تعداد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد سے دگنی تھی۔

اس ریکارڈ کے مطابق کل 302 زخمیوں کا اندراج کیا گیا، ان میں سے 104 پولیس اور ایف سی کے اہلکار تھے۔

ان میں سے 29 کا اس وقت بھی علاج کیا جارہا ہے۔

اس کے برعکس پیر کے روز بیس زخمیوں کو لایا گیا، ان میں سے نو پولیس اور ایف سے کے اہلکار تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو فارغ کردیا گیا ہے۔

اس کے مقابلے میں پیر کے روز پولی کلینک میں چوبیس زخمیوں کو لایا گیا، ان میں سے اکیس کا تعلق پنجاب پولیس اور فرنٹیئر کانسٹبلری سے تھا۔ اور ان میں سے سترہ کو علاج کے لیے داخل کرلیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے تین اور پی اے ٹی کے دو زخمی پولی کلینک کے گائناکولوجی کے وارڈ میں داخل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ایف سی اور پنجاب پولیس کے ایک ایک کانسٹبل اپنی مصیبتوں کے لیے ایک دوسرے پر الزام لگاتے پائے گئے، لیکن بیک وقت وہ ایک دوسرے کی دیکھ بھال بھی کررہے تھے۔

پولی کلینک میں اب تک ریڈزون میں ہونے والے تصادم کے 312 زخمیوں کا علاج کیا گیا، ان میں سے 75 پولیس اور ایف سی کے اہلکار تھے جبکہ زخمی مظاہرین میں سے 171 مرد، 52 خواتین اور 14 بچے تھے۔

Read Comments