Dawn News Television

شائع 13 ستمبر 2014 06:28am

آئی ڈی پیز کے لیے ٹی ڈی پیز کی اصطلاح استعمال کرنےکی ہدایت

پشاور : عسکریت پسندی سے متاثر ہونے والے پاکستان میں گیارہ سال بعد نے فاٹا سے تشدد اور فوجی آپریشنز کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کے حوالے سے دفتر خارجہ نے ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز اور متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ انہیں داخلی بے گھر (آئی ڈی پیز) کی بجائے نئی اصطلاح عارضی طور پر اپنی جگہوں سے ہٹنے والے افراد(ٹی ڈی پیز) کہہ کر پکارا جائے۔

حکام نے ڈان کو بتایا کہ دفتر خارجہ نے حال ہی میں ایک خط فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی، صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی ، خیبرپختونخواہ اور دیگر ریاستی اداروں ارسال کیا ہے جس میں ہدایت کی گئی ےہ کہ بے گھر افراد کو آئی ڈی پیز کی بجائے ٹی ڈی پی کی اصطلاح استعمال کیا جائے۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے کہا"میں اس نئی اصطلاح کے پیچھے چھپی سوچ کو سمجھ نہیں کسا ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان افراد کو آئی ڈی پیز کہا جائے یا ٹی ڈی پیز"۔

اس عہدیدار نے کہا کہ حکومت نت نئی اصطلاحات متعارف کرانے کی بجائے ان افراد کی واپسی اور بحالی نو پر توجہ مرکوز کرے۔

اس کا کہنا تھا کہ لوگوں کے بے گھر ہونے کا سلسلہ 2007 میں شروع ہوا مگر دفتر خارجہ کو ایسے افراد کے لیے مناسب لفظ 2014 میں ملا، جو کہ کافی عجیب لگتا ہے۔

جب اس حوالے سے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ آئی ڈی پیز ایک قانونی اصطلاح ہے جو ایسے افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی تنازعے کے باعث بے گھر ہوئے ہو۔

انہوں نے کہا" یہ لوگ(فاٹا کے آئی ڈی پیز) کسی جنگ یا علاقے پر قبضے کے نتیجے میں بے گھر نہیں ہوئے، ہماری فورسز نے قبائلی علاقوں میں حکومتی رٹ دوبارہ بحال کرنے کے لیے کارروائی شروع کی تھی اسی لیے ان متاثرہ افراد کو آئی ڈی پیز کی بجائے ٹی ڈی پیز کہا جانا چاہئے"۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا قبائلی علاقے سے انخلاءکسی یا ان کے علاقوں میں بزور طاقت قبضے کی وجہ سے نہیں ہوا۔

سیکیورٹی فورسز نے فاٹا میں 2003 میں آپریشن شروع کیا تھا تاکہ مقامی اور غیرملکی عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کیا جاسکے اور قبائلی علاقوں سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں حکومتی رٹ بحال کی جاسکے۔

فوجی کارروائی کو بتدریج تمام قبائلی علاقوں، مالاکنڈ ڈویژن اور خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں تک پھیلایا گیا۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی اور تنازعات کے باعث اب تک ملک بھر میں پچاس ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ آپریشنز کے دوران پانچ ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اب تک فوجی آپریشنز میں ہزاروں مقامی و غیرملکی عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے، جبکہ بدامنی کے شکار علاقوں سے شہریوں کا انخلاء2008 میں ہوا تھا۔

ایف ڈی ایم اے کے مطابق اپنے گھر بار چھوڑنے والے خاندانوں کی تعداد دو لاکھ 57 ہزار 355 ہے۔

یہ خاندان 2009 سے کیمپوں یا کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں کیونکہ حکومت نے ان کے علاقوں کو تنازعے سے متاثرہ علاقے قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے نتیجے میں 55 ہزار 183 خاندانوں کو اپنے گھربار چھوڑ کر خیبرپختونخواہ منتقل ہونا پڑا۔

اقوام متحدہ کے ہیومین رائٹس کمیشن کے مطابق داخلی طور پر بے گھر افراد کی گائیڈلائنز کے مطابق آئی ڈی پیز ان افراد کو کہا جاتا ہے جنھیں طاقت یا کسی اور وجہ سے اپنے گھر بار یا آبائی علاقے چھوڑ کر بھاگنا پڑے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ہیومینٹرین قوانین کے ماہر دلاور کان نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ تنازعے سے متاثر افراد کے لیے "ٹی ڈی پی" کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

انہوں نے اصرار کیا کہ "عارضی" کی اصطلاح ایسے بے گھر افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی معینہ عرصے کے لیے اپنے علاقوں سے انخلاءپر مجبور ہوئے ہوں، جو کہ ایک ماہ یا چھ ماہ تک ہوسکتا ہے جس کے بعد انہیں گھرواپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا" اگر حکومت واپسی کے کسی مخصوص دورانیے کا تعین نہیں کرسکتی تو وہ انہیں عارضی طور پر گھر بار چھوڑنے والا بھی نہیں قرار دے سکتی"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے افراد خیموں میں کئی برسوں سے انتہائی بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی قسمت ہوا میں معلق ہے۔

دفتر خارجہ کے پالیسی بیان پر ایک تجزیہ کار نے کہا"اپنے گھروں کو مجبوراً چھوڑنے والے افراد کو جو بھی نام دیا جائے، اس سے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی"۔

Read Comments