Dawn News Television

شائع 21 دسمبر 2014 03:28am

انسانی حقوق گروپس سزائے موت کے خلاف

اسلام آباد: انسانی حقوق کے مختلف عالمی گروپس نے پاکستان حکومت کی جانب سے جمعہ کے روز دو دہشت گردوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کی مخالفت کی ہے۔

پشاور کے ایک سکول میں 130 سے زائد بچوں کی طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے چھ سالوں سے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد بحال کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا کہ لوگوں کو سزائے موت دینے سے دہشت گردی سے نہیں لڑا جا سکتا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیاء پیسفک ڈیوڈ گریفی نے کہا 'پشاور کے سکول پر بہت بھیانک تھا لیکن حکومت کی جانب سے مزید ہلاکتیں بھی خوفناک ہیں اور یہ کبھی بھی جرم اور دہشت گردی سے لڑنے کا طریقہ نہیں ہے۔

گریفی کے مطابق، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت بڑی تعداد میں لوگوں کو پھانسیاں دے کر عالمی قانون کی خلاف ورزی دہرانے جا رہی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں جن میں سے 500 سے زائد پر دہشت گردی سے متعلقہ الزامات ہیں۔

'سزائے موت زندہ رہنے کے حق کی نفی ہے، حکومت ان سزاؤں پر عمل درآمد کے ذریعے عالمی قانون کی خلاف ورزی کرنے جا رہی ہے اور ہمیں اس پر گہری تشویش ہے'۔

گروپ نے کہا کہ سزائے موت کے کئی فیصلے 'عالمی معیار کی سماعت' کے بغیر ہوئے ۔

گریفی نے کہا کہ بہت سے لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئی ہیں اور پاکستان میں موجودہ فضا نے صورتحال کو مزید خطرناک بنا دیا۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان سزاؤں پر عمل درآمد کا منصوبہ روکے اور سزائے موت پر دوبارہ پابندی لگائے۔

دوسری جانب، ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے ان سزاؤں پر عمل درآمد کو 'سانحہ پشاور پر شکست خوردہ سیاسی ردعمل ' قرار دیا۔

ایچ آر ڈبلیو نے زور دیا کہ مزید پھانسیاں نہ دی جائیں۔' حکومت نے اندوہناک سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کو تلاش کرنے اور انہیں قانون کے کٹھرے میں کھڑا کرنے کے بجائے انتقامی کارروائی شروع کر دی'۔

اقوام متحدہ نے بھی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اس منصوبہ پر دوبارہ غور کرے۔

Read Comments