Dawn News Television

اپ ڈیٹ 26 مئ 2015 10:43am

یہاں کوئی دفن نہیں

لاہور کے ایک پرانے قبرستان کی ایک قبر پر یہ الفاظ لکھے ہیں

'میری بیوی، میری دوست، میرا پیار، میری زندگی' — صرف آٹھ الفاظ کی پریم کہانی۔

محبت کے اس اظہار کے اوپر ایک نام، تاریخِ پیدائش، اور تاریخِ وفات درج ہیں۔

پڑھتے ہی اداس کردینے والا یہ کتبہ اپنے آپ میں منفرد بھی ہے۔ ان خاتون کی قبر کا کتبہ اس ملک کے قبرستانوں میں موجود کروڑوں کتبوں میں سے ان چند گنے چنے کتبوں میں سے ہے جن پر کسی قسم کے کچھ جذبات تحریر ہیں۔

پاکستان میں جذبات کا ایسے اظہار کرنے کا رواج موجود نہیں ہے۔

روایتی طور پر جب بھی قبر پر نشانی لگائی جاتی ہے، تو اس پر نام، تاریخِ پیدائش، تاریخِ وفات، اور کچھ مذہبی تحریریں لکھ دی جاتی ہیں۔

شاید ہی کبھی زندگی کی کوئی تفصیل کتبے پر لکھی جاتی ہو۔ کسی قسم کے جذبات کتبے پر منتقل کرنا تو بہت ہی نایاب ہے۔

موت کے چالیس دن تک رسموں پر رسمیں ہوتی رہتی ہیں، لیکن کتبہ احساسات و جذبات سے خالی رہتا ہے۔ اس دنیا سے جانے والے سب ہی لوگ کسی نہ کسی کے پیارے ہوتے ہیں تو محبت کے اظہار میں اتنی ہچکچاہٹ کیوں؟

مردہ لوگوں کے مردہ کتبے

یہ ملک انتہائی جذباتی ملک ہے۔ ڈرائیور چیختے چِلاتے ہیں، شادیاں ہفتوں تک جاری رہتی ہیں، سیاست میں بھرپور دلچسپی لی جاتی ہے، دوست زندگی بھر کے لیے ہوتے ہیں، پڑوسی ٹوہ میں رہنے والے ہوتے ہیں۔ مذہب سب سے بلند، اور مذہب کے بعد کرکٹ سب سے بلند۔

اس ملک کے ہر شہری کی زندگی جذبات و واقعات سے بھرپور ہوتی ہے، لیکن قبر میں پہنچتے ہی جیسے یہ سب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔

احساسات سے خالی ان کتبوں کے نیچے کون دفن ہے؟

پڑھیے: کیپٹن ہینڈز، سونے کے بٹن اور گمشدہ گورا قبرستان

کیا یہ انہی لوگوں کی قبریں ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی سرد مہری سے بھرے لمحات نہیں دیکھے ہوتے؟

ہم لوگ ان تمام الفاظ کو کیوں بھول جاتے ہیں، جن سے وہ لوگ اپنے آخری وقتوں میں جانے جاتے تھے؟

ظاہر ہے بہت سے مشہور لوگ اس کیٹیگری میں شمار نہیں ہوتے۔ زندگی کی طرح موت کے بعد بھی ان کی شہرت واضح رہتی ہے، جس سے وہ دوسرے عام لوگوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔

وحید مراد کا کتبہ واضح انداز میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں پر عظیم سپر اسٹار اور چاکلیٹی ہیرو مدفون ہیں۔ فضل محمود کی قبر پر اوول ہیرو لکھا ہے، جسے پڑھتے ہی 5 دہائیوں پہلے گرنے والی 12 وکٹوں کی آواز کانوں میں گونج اٹھتی ہے۔ اللہ وسائی کی قبر پر تحریر 'ملکہ ترنم نور جہاں' موت کے بعد بھی ملکہ کے طور پر ان کی یاد قائم رکھے ہوئے ہے۔ منٹو چاہتے تھے کہ ان کے کتبے پر خدا کے لکھنے کے ہنر کو چیلنج کیا جائے، لیکن ان کے رشتے داروں نے اسے تھوڑے کم متنازع پیغام سے تبدیل کردیا۔

لیکن حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کے سیاستدان اور اعلیٰ شخصیات کی بھی قبروں پر ایک دو القابات کے علاوہ اور کچھ موجود نہیں ہوتا۔ یہ افراد جو زندگی میں مشہور اور طاقتور ہوتے ہیں، ان کے کتبے اتنے ہی سادہ۔

جنرل ضیاء الحق کی قبر پر صرف 'صدرِ پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف' لکھا ہے جسے دیکھ کر ان کا 11 سالہ مطلق العنان دورِ حکومت صرف ماضی کی ایک جھلکی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

ہمارے تمام صدور میں سب سے زیادہ مشہور، جیکی کینیڈی کے ساتھ گھڑ سواری کرنے والے ایوب خان کے کتبے پر صرف ایک چیز لکھی ہے، 'فیلڈ مارشل'۔

سلمان تاثیر کی زندگی کی کئی کامیابیاں اور ان کی شخصیت کے کئی رخ ان کی موت کے بعد اب کہیں چھپ گئے ہیں۔ یہ کامیاب بزنس مین، سیاستدان، اور آرٹ کلیکٹر اب صرف 'شہیدِ انسانیت' کے نام سے جانا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: گمشدہ لوگوں کا مزار

بینظیر بھٹو کی قبر پر ان کی کچھ کامیابیاں لکھی ہیں، جیسے کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم، جو جمہوریت اور اسلام کے پیغامِ امن کے لڑتے ہوئے شہید ہوگئیں۔

خواتین — مردوں کی مائیں، بیٹیاں، اور بیویاں

چاہے مرنے والا عام شخص ہو یا خاص، اس سے قطع نظر پہلے زمانے میں قبروں پر خراجِ تحسین لکھا جاتا تھا۔ چار سے پانچ دہائیوں پہلے کی قبروں پر شاعری، دائیں، افسوس، اور تسلیمات لکھی جاتی تھیں۔

لیکن تب سے لے کر اب تک کے زمانے کے دوران ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ کتبے احساسات سے خالی پتھروں میں تبدیل ہوگئے ہیں، جبکہ خواتین کی قبریں اب آہستہ آہستہ ناموں کے بجائے رشتوں سے پہچانی جاتی ہیں۔

اب ان کو ملک فرید کی زوجہ، چوہدری بشیر کی دختر، یا جمیل اشفاق کی والدہ لکھا جاتا ہے۔ ان کا نام کبھی ظاہر نہیں کیا جاتا۔ وہ اب صرف ملکیت کے طور پر رہ جاتی ہیں۔ ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو کتبے پر ایسا لکھا ہونے کا مطلب ہے، 'یہ قبر ملک فرید کے ہونے کا ثبوت ہے'۔

کتبوں پر ناموں کی عدم موجودگی کی ایک وجہ مذہبیت بھی ہے۔ زندگی اور موت خدا کی مرضی ہیں اور خدا کے فیصلے کے سامنے انسانی جذبات لانا بے فائدہ ہے۔ تو پھر کیوں تحریری جذبات کی فکر کی جائے۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ اگر کتبے پر جگہ کم ہے، تو یہ جگہ آیات و دعاؤں کے لیے مختص کی جانی چاہیے تاکہ قبر والے پر رحمت نازل ہو۔ ایک اور وجہ صرف باقی لوگوں کی پیروی میں جذبات سے خالی کتبے بنانا ہے: جب سب لوگ بغیر نام کی قبریں بنا رہے ہیں، تو کیوں الگ نظر آنے کی کوشش کی جائے۔

لیکن مجھے لگتا ہے کہ حقیقی وجہ ہماری قوم کی کھلے عام محبت کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ ہے، خاص طور پر جب یہ کسی خاتون کے ساتھ ہو۔ یہاں جوڑے سب کے سامنے ہاتھ نہیں پکڑتے، گلے نہیں ملتے۔ کئی والد اپنے بچوں کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

پڑھیے: کراچی کی یہودی مسجد

ہمارے مرد جذبات جیسی بیکار چیزوں سے پاک ہوتے ہیں۔

لاہور کے ایک اور پرانے قبرستان میں ایک سولہ سالہ لڑکی کی قبر موجود ہے۔

سر کی جگہ پر لوہے کی ایک چھوٹی سی تختی موجود ہے۔ نام اور تاریخ صاف اور پروفیشنل لکھائی میں لکھی ہیں۔ اس کے نیچے کسی نے لرزتے ہاتھوں سے لکھا ہے 'میری پیاری لاڈو'، ایک افسوسناک کہانی صرف تین لفظوں میں۔

لکھنے والا آپ کو اپنا دکھ شیئر کرنے دے رہا ہے، اور کسی گزرنے والے کو بغیر پڑھے گزرنے نہیں دیتا۔ احساسات جیسی بیکار چیزیں پکارتی ہیں کہ یہاں اس شخص کی اولاد دفن ہے، جس سے اسے بہت پیار تھا۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments