Dawn News Television

اپ ڈیٹ 24 جنوری 2015 12:02pm

'پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ناقابل قبول'

واشنگٹن:امریکا کے صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ناقابل قبول ہیں۔

انڈیا ٹو ڈے میگزین کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں باراک اوباما، جو اتوارکو اپنے دوسرے تین روزہ دورے پر ہندوستان پہنچ رہے ہیں، نے زور دیا کہ ممبئی حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔

امریکی صدر نے واضح کیا کہ امریکا اور ہندوستان کے تعلقات پاک ۔ انڈیا تنازعات سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔

انھوں نے ہندوستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کے مطالبے کی بھی حمایت کی اور اس بات کا اعتراف کیا کہ انڈیا بین الاقوامی تعلقات کا ایک اہم کھلاڑی ہے۔

انھوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ امریکا اور ہندوستان کے تعلقات 21 ویں صدی کی اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہوں گے۔

اوباما کا کہنا تھا کہ 'ہم قدرتی شراکت دار ہیں، دو عظیم جمہورتیں اور ہماری طاقت کی جڑیں ہمارے شہریوں کی طاقت اور صلاحیتوں میں ہیں۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے اس معاشرے میں اہم جدت طرازی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی رہنما ہیں'۔

انھوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ ہندوستان کے اسٹرٹیجک محل وقوع نے 'ہماری مشترکہ سلامتی اور خوشحالی' کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا اور ہندوستان کے مل کر کام کرنے سے دونوں ملک اور یہ دنیا مزید مضبوط اور ترقی یافتہ ہوں گے۔

اگرچہ رواں ہفتے کے آغاز میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہندوستان کے ساتھ اس کے تعلقات ، پاکستان کی قیمت پر استوار نہیں کیے گئے، تاہم جنوبی ایشیا کے ماہرین کی جانب سے انڈیا کے حوالے سے پاکستان پر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا گیا۔

ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر آف اسکالرز کے ایک ماہر مائیکل کیوگل مین نے نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکی انتظامیہ کو پاکستان سے ہندوستان کے تحفظات کے حوالے سے بات کرنا چاہیے، دوسری جانب پاکستان سے تعلقات کو بھی برقرار رکھنا ضرروی ہے۔

مائیکل نے لکھا : امریکا کو ایک نازک رقص کرنے کی ضرورت ہے: ایک طرف تو امریکا۔ ہندوستان دوستی میں اضافے کے لیے پاکستان پر زور ڈالا جائے، دوسرا اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ پاکستان کو بالکل تنہا نہ کردیا جائے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روزایک نیوز بریفنگ کے دوران بھی پاکستان اور دہشت گردی سے متعلق معاملات اُس وقت زیر بحث آئے تھے، جب امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ کہ انھیں پاکستان کی جانب سے حافظ سعید کی جماعۃ الدعوۃ اور حقانی نیٹ ورک پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے کوئی تصدیق موصول نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں:'جماعۃ الدعوۃ پر پابندی کی تصدیق نہیں ہوئی'

جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکا، پاکستان کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کو تسلیم کرتا ہے۔

ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 'ہم پاکستان کے عزم کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سانحہ پشاور جیسے بدترین حملوں سے بچنے کے لیے اس طرح کے اقدامات نہایت ضروری ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ تمام عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا ملک کے اپنے مفاد میں ہے اور دہشت گردوں کے مابین اچھے یا برے کی کوئی تفریق نہیں ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اور ہندوستان کی جانب سے حافظ سعید کی سربراہی میں کام کرنے والے "فلاحی" ادارے جماعۃ الدعوۃ کا تعلق کالعدم 'لشکر طیبہ' سے بتایا جاتا رہا ہے۔

لشکر طیبہ کو 2008 میں ہندوستان میں ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

Read Comments