Dawn News Television

شائع 08 مارچ 2015 04:12pm

دو کپتانوں اور ایک بہترین کرکٹ میچ کی کہانی

اگر آپ ہفتہ کی سہ پہر اپنی کرسی کے کنارے پر نہیں بیٹھے ہوئے تھے تو یقیناً آپ پاکستان کو جنوبی افریقہ کو ضرب لگاتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہوگے جو کہ یقیناً قابل افسوس ہے کیونکہ ورلڈکپ میں چند ہی بہتر مقابلے اب تک دیکھنے میں آئے ہیں۔

اگر آپ اسکور بک کا جائزہ لیں تو پاکستان کی فتح کا مارجن 29 رنز ہے جو عندیہ دیتا ہے کہ یہ ایک آسان جیت رہی ہوگی مگر یہ بہکاوے سے زیادہ کچھ نہیں، درحقیقت مصباح الحق کی ٹیم کو اے بی ڈیویلیئر پر غلبہ پانے کے لیے کافی اتار چڑھاﺅ اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔

جنوبی افریقی کپتان جب تک نویں وکٹ نہیں بنے جو کہ صبر و تحمل سے کھیلنے والے اس کرکٹر کی جانب سے شاذ و نادر کی جانے والی غلطی کا نتیجہ تھی جو انہوں نے پل شاٹ کھیلتے ہوئے اپنی وکٹ تحفے کے طور پر پیش کردی، جس کے بعد پاکستان یا ہر ایک ماننے لگا کہ اب جنوبی افریقہ میچ ہار گیا ہے۔

جب تک وہ کریز پر موجود تھے تو میچ کا کنٹرول ان کے ہاتھوں میں دکھائی دے رہا تھا اور میرا نہیں خیال کہ ہمیں اس بات پر شبہ کرکے مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ اس وقت ڈیویلیئرز ہی دنیا کے سب سے بہترین بلے باز ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ان کا بلا جلد ہی کنگ آرتھر کی تلوار جتنا مشہور ہوجائے گا جس سے وہ اپنے دشمنوں پر قیامت ڈھاتے تھے۔

اور ڈیویلیئرز کی بہتر بلے بازی جو انہیں موجودہ ورلڈکپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے بازوں کی فہرست میں سب سے اوپر لے گئی، کے باوجود جنوبی افریقہ اب دو اہم میچوں میں ناکام ہوچکی ہے (پہلے وہ ہندوستان کے خلاف ناکام ہوئی تھی) جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ٹیم صلاحیت کے اعتبار سے چاہے جتنی بھی بھرپور ہو مگر پریشر کے سامنے اب بھی انتہائی کمزور ہے۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف جمعے کو ہندوستان کی طرح جنوبی افریقی ٹاپ آرڈر بھی نسبتاً چھوٹے ہدف کے تعاقب میں بے موقع اور جلد بازی میں اسٹروکس کھیل کر بکھر گیا، مگر ہندوستان کے برخلاف جس نے مہندرا سنگھ دھونی کے ٹھنڈے ذہن کی بدولت کامیابی حاصل کی، جنوبی افریقہ ڈیویلیئرز کی کی بہترین بلے بازی کے باوجود لائن عبور کرنے میں ناکام رہا۔

جے پی ڈومینی جیسی صلاحیت رکھنے والا بیٹسمین سات رنز بناکر واپس لوٹ آیا اور ٹاپ آرڈر کے اندر مہم جوئی کا رجحان دیکھنے میں آیا مگر یہ ڈیویلیئرز کے لیے زیادہ فکرمندی کا باعث نہیں بلکہ اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں یعنی بلے بازوں اور باﺅلرز کے ٹمپرامنٹ کی کمزوری زیادہ فکرمندی کا باعث ہے، جب بھی حالات مشکل ہوتے ہیں تو وہ زیادہ کمزور نظر آنے لگتے ہیں۔

بلے باز کی حیثیت سے تمام تر عظمت کے ساتھ ڈیویلیئرز کپتانی کے معاملے میں زیادہ نمایاں نظر نہیں آتے، اس کھیل میں تدابیر کے مختلف حصوں کا فیصلہ میچ سے قبل ہوتا ہے اور کرکٹ کی کپتانی کو دیگر کھیلوں سے الگ کرتا ہے۔

اس کے مقابلے میں مصباح الحق اپنی ٹیم کی قیادت عزم اور زیادہ تخلیقی حکمت عملیوں کے ساتھ کررہے ہیں جو ٹورنامنٹ کے بیشتر کپتانوں میں نظر نہیں آتی۔

کچھ وجوہات کی بناءپر میں ان کی گہرائی ماپنے سے قاصر ہوں،مگر وہ بلاوجہ بہت بھاری بوجھ تلے دبا دیئے گئے ہیں خاص طور پر اپنے ملک کے سابق کھلاڑیوں کے مگر وہ اسے صبر سے برداشت کرتے ہیں۔

کسی دن جب وہ ایک سوانح حیات تحریر کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہم جان سکیں کہ ان کے ذہن میں کیا کچھ چلتا رہا ہے۔

میری رائے میں مصباح کا غیر جذباتی انداز درحقیقت جارحیت کو کنٹرول کرنے کی کوشش پر پردہ ڈالنا ہے۔

ایک کے بعد ایک میچ میں وہ اننگ کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اپنے اسٹرائیک ریٹ پر ہونے والی تنقید سے بے پروا نظر آتے ہین جبکہ اب وہ ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ رنز کرنے والے بلے بازوں میں سے ایک ہیں۔

ان کے طرز فکر کی منطق یہ نظر آتی ہے کہ اگر وہ کچھ رنز کریں گے چاہے کسی بھی رفتار سے، ان کی ٹیم کو ایک موقع ملے گا جیسا زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف نظر بھی آیا۔ان کی بیٹنگ میں کوئی ڈرامائی انداز نہیں اور وہ گیلری کے نہیں کھیلتے، آپ انہیں اپنے جبڑوں کو دباتے دیکھتے ہیں تو اپنے عزم کو برقرار رکھ سکیں۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ مصباح نے اپنی ٹیم کے مھدود ہونے کا تجزیہ کررکھا ہے ، وہ یقیناً عمران خان کی طرح متاثرکن اور تحکم پسند نہیں مگر پھر بھی وہ اپنے کھلاڑیوں کو بہلانے میں کامیاب رہتے ہیں خاص طور پر باﺅلرز کو۔

پاکستان اس ٹورنامنٹ میں کہاں تک پہنچتا ہے اس کا بڑا انحصار مصباح پر ہے بطور بلے باز اور کپتان۔ وہ کم تر ہوسکتے ہیں مگر انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

تبدیلی کی چند حیرت انگیز اشارے ابھرنے لگے ہیں جیسا 1992 میں بھی ہوا تھا۔

ٹائٹل کی فتح ابھی دور بہت دور ہے، بیٹنگ اب بھی لڑکھڑاہٹ کا شکار ہے اور فیلڈنگ ایوریج سے بھی کم تر، مگر ایک تباہ کن آغاز کے بعد پاکستان نے اپنی طاقت کے ساتھ متاثرکن واپسی کی ہے اور آخرکار ایک درست کمبینیشن پر کام کرلیا ہے۔

اب یہ دیوانہ پن لگتا ہے کہ ایک اسپیشلسٹ کیپر اور بہترین اسٹروک پلیئر طویل عرصے سے بینچ پر بیٹھا تھا جیسا اسٹار اسپورٹس کے اینکر منیش بٹاویہ نے ٹوئیٹ کیا " مین آف دی میچ کا ایوارڈ اس شخص کے نام ہونا چاہئے جس نے پاکستان کو سرفراز احمد کو کھلانے کے لیے قائل کیا"۔

یہ تو ایک مذاق تھا مگر اس سے زیادہ سنجیدہ اور کیا کہا جاسکتا ہے؟

Read Comments