Dawn News Television

شائع 01 اگست 2015 11:42am

ہندو خاتون کا ریپ: پولیس ایف آئی آر سے انکاری

کراچی: ملک کی پسماندہ کمیونٹیز کی خواتین ک بااثر افراد کے ہاتھوں استحصال اور ریاست کی جانب سے اس طرف سے آنکھیں بند کرنے کا معاملے پس پردہ ہی رہتا اگر جمعے کو اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس نہ کی جاتی.

ٹھٹھہ کی رہائشی 30 سالہ ایمی خواتین اور بچوں پر تشدد اور بد سلوکی کے حوالے سے کام کرنے والی ایک این جی او "مددگار" کی مدد سے انصاف کی تلاش میں ہیں.

ستم ظریقی یہ ہے کہ پولیس نے نہ صرف ایمی کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا بلکہ انھیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا.

ایمی کے مطابق اس معاملے سے حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا.

مددگار ہیلپ لائن کے تعاون سے ان کے دفتر میں منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایمی نے بتایا : " جب میں اپنی شکایت لے کر ٹھٹھہ پولیس کے پاس گئی تو کسی نے میری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہاں موجود اسٹاف نے مجھ پر ہنسنا شروع کردیا، مجھے کہا گیا کہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ( ڈی ایس پی) مکلی کے گھر جاکر ایف آئی آر درج کراؤں".

ایمی نے بہتے آنسوؤں کے دوران پولیس افسران پر ان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ "میرا 8 سال تک استحصال کیا گیا اور میں نے انصاف کا مطالبہ کیا".

ایمی کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب 2008 میں ان کی ایک شخص سے فون پر دوستی ہوئی. میرپور ساکرو کے رہائشی شہباز نامی شخص نے ایمی کو اپنے گھر کے باہر ملنے کا کہا اور پھر رمضان نامی ایک اور شخص کی مدد سے انھیں اغواء کرلیا.

وہ ایمی کو ایک نامعلوم مقام پر لے گئے جہاں 20 دن تک انھیں ایک اندھیرے کمرے میں رکھا گیا، تشدد کیا گیا اور انھیں ریپ کا نشانہ بنایا گیا.

ایمی نے بتایا کہ بعد ازاں انھیں فروخت کر کے نوابشاہ لے جایا گیا.

نوابشاہ میں ایمی پر دباؤ ڈال کر ہندومت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے کچھ کاغذات پر دستخط کروائے گئے اور پھر جاوید خاصخیلی نامی ایک شخص سے جعلی شادی کروا دی گئی، جس نے ایمی کو جسم فروشی پر مجبور کیا. انھوں نے 2 مرتبہ فرار ہونے کی کوشش کی جس کی انھیں سزا دی گئی.

ایمی نے بتایا کہ انھیں جلایا گیا، پہلے وہ نوابشاہ کے ایک ہسپتال میں اور پھر حیدرآباد میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں زیرِعلاج رہیں.

پریس کانفرنس کے دوران ایمی نے بتایا کہ انھیں جاوید کی اہلیہ کی حیثیت سے اپنی شناخت کروانے کا کہا گیا جبکہ انھیں زہر بھی دیا گیا.

ایمی کے مطابق انھوں نے حیدرآباد میں 6 سال قید میں گزارے جس کے دوران وہاں ان کی 3 لڑکیوں سے ملاقات ہوئی جنھیں جسم فروشی کے لیے خریدا گیا تھا. آخر کار عید کے دوسرے دن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں اور ٹھٹھہ میں اپنے گھر پہنچیں، لیکن یہاں پہنچ کر انھیں معلوم ہوا کہ ان کے واحد قریبی رشتے دار، والد کا ان کے اغواء کے بعد انتقال ہوگیا تھا.

انھوں نے مزید بتایا کہ ایک دوست کی مدد سے میں کراچی کی عدالت آئی جہاں مجھے کسی نے مشورہ دیاکہ مجھے مددگار سے مدد لینی چاہیے.

ایمی نے ان کو قید میں رکھنے والوں میں سے ایک کی تصویر اور شناختی کارڈ بھی میڈیا بریفنگ کے دوران دکھایا.

اس حوالے سے مددگار کے ایڈووکیٹ ضیاء اعوان نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے متاثرہ خاتون کا کیس تیار کرلیا ہے اور متعلقہ پولیس افسران سے بھی رابطہ کیا ہے لیکن پولیس یہ کیس درج کرنا ہی نہیں چاہتی.

انھوں نے بتایا کہ ٹھٹھہ پولیس کا اصرار ہے کہ یہ کیس ان کی حدود میں نہیں آتا اور اس حوالے سے میرپور ساکرو پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے. ہم نے مذکورہ خاتون کو وہاں جانے کا کہا لیکن انھوں نے بھی یہ کیس رجسٹر کرنے سے انکار کردیا تاہم دونوں پولیس اسٹیشنز نے درخواست قبول کرلی ہے.

ضیاء اعوان کے مطابق جب ان کی این جی او کو منسٹر برائے کلچر شرمیلا فاروقی سمیت حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا تب ہی ہم نے یہ کیس میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا.

انھوں نے کہاکہ ریاست کی جانب سے ایکشن نہ لیا جانا اور انصاف کی عدم فراہمی بھی ایک طرح کی دہشتگردی ہے، "ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کی سنجیدگی سے تفتیش کی جائے اور مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے".

ضیاء اعوان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ تو پہاڑ کی ایک چوٹی جیساہے، زیادہ تر کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور بہت سے کیسز جو ہم تک پہنچتے ہیں، ان میں ظلم کا شکار افراد میڈیا کے سامنے آکر بات نہیں کرنا چاہتے.

انھوں نے پولیس اور انصاف کے نظام کو فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا.

Read Comments