Dawn News Television

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017 05:52pm

میڈیا منڈی: مثبت مگر ادھوری کہانی

ماضی میں صحافت کے شعبے پر کئی کتابیں تصنیف وتالیف ہوئیں، جن کا زیادہ تر موضوع صحافتی اداروں اور حکومتوں کے مابین چقپلش تھا۔ کسی نے پاکستانی میڈیا پر لکھنے کی کوشش کی، تو ایک ہی ادارے کی طرف توپوں کا رخ موڑ دیا (مثال کے طور پر مبشر لقمان کی کتاب کھرا سچ)، یا پھر پنجابی کہاوت کے مطابق ’’شلجم سے مٹی جھاڑی‘‘ یعنی گول مول لکھ کر لکھنے کی رسم پوری کی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایسی کوئی کتاب، جس کو پڑھ کر میڈیا کی اندرونی کہانیاں سمجھ میں آسکیں اور گتھیاں سلجھیں، نہ کسی نے لکھی اور نہ ہی اب تک اس جرات رندانہ کا اظہار کیا۔

پاکستان میں جب سے سوشل میڈیا کا استعمال شروع ہوا، تب سے آزادیء اظہارِ رائے میں بھی اضافہ ہوا، کئی حساس موضوعات کے علاوہ میڈیا بھی موضوع بحث بننے لگا، لیکن جن قلم کاروں نے بھی کتابی شکل میں صحافت پر کچھ لکھا، تو اپنا دامن بچا کر لکھا۔

گذشتہ کئی برسوں میں سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات اور چینلز سے جبری بے روزگارکر دیے جانے والے صحافیوں کی روداد کا ذکر نہ کسی اخبار میں ملا، نہ ہی کسی چینل سے نشر ہوا۔

اسی طرح کئی صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے زخمی ہوئے یا جان سے بھی گئے، مگر ان میں سے اکثریت کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ ایک اردو روزنامے میں میرے ساتھ کام کرنے والی صحافی خاتون جب دورانِ ڈیوٹی بم دھماکے میں زخمی ہوئیں تو کئی دن تک اسی حالت میں اپنے فرائض انجام دیتی رہیں۔ اور طبیعت زیادہ خراب ہونے پر انہیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

سب اس خاتون کے حالات جانتے تھے جو بیوہ تھی اور دو بچوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں زخمی حالت میں اپنی زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی تھی۔ وہ کراچی میں قائم صحافیوں کی تنظیم کی فعال کارکن اور کراچی پریس کلب کی رکن بھی ہے۔ کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔

اس موقع پر صرف ہیرالڈ نے اگست 2011 کے شمارے میں اس کی خستہ حالی کو قلم بند کیا۔

صحافتی تنظیموں کی کوششیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہیں، یا ان کی ہمدردی کا احساس صرف پکوڑے تلنے تک بیدار ہوتا ہے۔ کتاب کے سرورق اور نام ’’میڈیا منڈی‘‘ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ انکشافات سے بھری ہوئی کتاب ہوگی مگر اس میں بھی اخباری صنعت کے حقیقی مسائل اور معاملات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

البتہ اکمل شہزاد گھمن کی کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ میں صحافتی خاندانوں اور دوستیوں میں پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑوں کو واضح طور پر قلم بند کیا گیا، اور اس کے لیے مصنف نے متعلقہ شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے اور بہت خوب کیے۔ ان میں عارف نظامی، مجید نظامی، سردار خان نیازی، مجیب الرحمن شامی، عباس اطہر اور ضیاء شاہد شامل ہیں۔ یہ انٹرویوز اس کتاب کا سب سے مضبوط حصہ رہے، لیکن ان میں بھی صحافتی استحصال پر بات کرنے کے بجائے شخصی تصادم اور سیاسی تعلقات زیادہ زیرِ بحث رہے۔

کتاب کے لیے صرف لاہور کی صحافت کا محاسبہ کیا گیا، اسلام آباد کا مختصر اور کراچی کا رسمی و نصابی اندازمیں ذکر کیا گیا۔ متن کی ان خامیوں کی وجہ سے کتاب کمزور ثابت ہوئی کیونکہ مصنف کا کہنا ہے کہ یہ کتاب پاکستانی پرنٹ میڈیا کے حقائق پر مبنی ہے، مستقبل میں وہ پاکستانی چینلز پر بھی لکھیں گے۔

مصنف کو چاہیے تھا کہ وہ پوری طرح اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے۔ کراچی کے صحافیوں پر کیا قیامتیں ٹوٹی ہیں، اس کی ان کو خبر تک نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر شہروں میں بھی مسائل ہوں گے جن کا تذکرہ اس کتاب میں ندارد ہے، مگر کتاب میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ اس کتاب کو لکھتے ہوئے کوئی خاص منصوبہ ذہن میں نہیں تھا، بس بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ امید ہے اگلی کتاب پوی منصوبہ بندی سے لکھیں گے کیونکہ یہ موضوع بہت توجہ مانگتا ہے۔

کالم اور کالم نگاری کے عنوان سے لکھے ہوئے باب میں مصنف نے مختلف اخبارات میں لکھنے والے معروف کالم نویسوں کا حدود و رقبہ بتایا اور بالکل درست عکاسی کی، البتہ نئے کالم نویسوں میں جن کے نام انہوں نے یہ کہہ کر گنوائے کہ مستقبل میں بڑے نام بنیں گے، اس کا پیمانہ شاید ان کی ذاتی جان پہچان ہو سکتا ہے، کیونکہ ان کے اب تک کے کالم زیادہ متاثر کن نہیں ہیں۔ یہاں گھمن صاحب نے بھی وہی عمل خود دہرایا، جس کے متعلق اسی باب میں وہ سینیئر کالم نویسوں کے متعلق شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول شخصے ’’تحریروں میں خوشامد کا گلاب جامن گھول دیتے ہیں۔‘‘

مصنف نے میڈیا منڈی کو تدریسی انداز میں لکھ کر اس کے عمومی اثر کو کم کیا۔ مثال کے طور پر نمایاں انگریزی اور اردو اخبارات کے نام اور تفصیلات دی گئیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ کب کون سا اخبار نکلا، اور اس کا مدیر کون ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ یہ صحافیوں کی جبری بے روزگاری، بقایاجات کا نہ ملنا، تنخواہوں کا انتہائی تاخیر سے ملنا اور دیگر مسائل پر قلم اٹھاتے۔ صحافیوں کی اکثریت کے گھروں کے چولہے کیسے بجھے، اس صحافتی استحصال کے اندھیرے پر گھمن صاحب کی کتاب کوئی روشنی نہیں ڈالتی۔

مصنف کی اس کتاب کی تقریب رونمائی میں جن صحافیوں نے بحیثیت مقرر شرکت کی، ان میں یوں تو ڈاکٹر مبارک علی اور ڈاکٹر مہدی حسن جیسے اساتذہ شامل تھے مگر اچھی بات ہوتی کہ تقریب میں عام صحافی یا وہ صحافی مدعو کیے جاتے جن کے گھر کا راستہ فاقوں نے دیکھ رکھا ہے۔

376 صفحات پر مشتمل ’’میڈیا منڈی‘‘ میں انٹرویوز میں کچھ نئی باتیں پڑھنے کو ملیں۔ اس کے بعد وہ ہی سب کچھ ہے، جو قارئین کو گوگل، وکی پیڈیا، فیس بک یا مختلف ویب سائٹس پر مل جائے گا۔ کون سے ادارے کی کتنی پبلکیشنز ہیں، ان کے مالکان کے نام کیا ہیں اور ان کا اجراء کب اور کیسے ہوا وغیرہ وغیرہ۔ البتہ ایک بات جو قابلِ تعریف ہے، وہ یہ کہ کسی نے تو میڈیا کو اس انداز میں دیکھنے کی کوشش کی۔ اب وہ اس میں کتنا کامیاب رہا، یہ الگ بحث ہے۔

میڈیا سے متعلقہ صحافیوں بالخصوص اخبارات اور رسائل و جرائد کے صحافیوں کو یہ بھاری پتھر چوم کر اٹھانا ہوگا۔ ساری دنیا کے حقوق کی خبریں چلانے والوں کے اپنے حقوق کس طرح غصب کیے جاتے ہیں، اس کا ذکر نہیں ہوگا تو آنے والی نسل کے صحافیوں کو نظامِ صحافت کی استحصالی روایات اور منافقت کے بارے میں پھر کون بتائے گا۔ یہ سوال ہنوز تشنہ ہے۔

Read Comments