Dawn News Television

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2016 10:02am

چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ، 20 ہلاک

پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں واقع باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے.۔

ڈان نیوز کے مطابق مسلح افراد یونیورسٹی کی عقبی دیوار سے داخل ہوئے.

ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں قوم پرست رہنما باچا خان کی برسی کے موقع پر ایک مشاعرے کا انعقاد ہونا تھا، جس میں 600 کے قریب افراد کی شرکت متوقع تھی۔

باچا خان یونیورسٹی کا شمار خیبر پختونخوا کے بڑے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے اور وہاں تقریبآ 3 ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں.

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک کمانڈر اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور نے نامعلوم مقام سے فون پر باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا، جس کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی قیادت نے ایک ای میل کے ذریعے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی کے مطابق طالبان شوریٰ ٹی ٹی پی کا نام استعمال کرنے والوں کے خلاف ایکشن لے گی۔

محکمہ تعلیم کے مطابق باچاخان یونیورسٹی پر حملے کے بعد چارسدہ کے تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے صوبے بھر میں 10 روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی باچا خان یونیورسٹی پہنچے، جہاں انھیں بریفنگ دی گئی.

بعدازاں آرمی چیف نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال چارسدہ کا بھی دورہ کیا اور حملے کے زخمیوں کی عیادت کی۔

امریکی مذمت

امریکا نے یونیورسٹی پر حملے میں کم از کم 20 ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان ایرک شلٹز نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا ’ہم اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘۔

کیا کیا ہوا:

  • مسلح افراد صبح 9 بجے کے قریب دیوار پھلانگ کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے اورفائرنگ کا آغاز کیا

  • یونیورسٹی میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں

  • آپریشن میں 4 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا، آئی ایس پی آر

  • پولیس نے ابتدائی طور پر 21 ہلاکتوں کی تصدیق کی تاہم بعد ازاں یہ تعداد 20 کر دی گئی

  • یونیورسٹی میں 3 ہزار کے قریب طلبہ زیرِ تعلیم ہیں


سیکورٹی فورسز کا آپریشن

سیکیورٹی اہلکار باچا خان یونیورسٹی کے باہر پوزیشن سنبھالے ہوئے— ۔فوٹو/ اے ایف پی

باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری جائے وقوع پر پہنچی اور یونیورسٹی کا گھیراؤ کرلیا.

پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے دستے بھی باچا خان یونیورسٹی پہنچ گئے، جبکہ علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی گئی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج نے باچا خان یونیورسٹی میں آپریشن کا آغاز کیا، جس میں ایس ایس جی کمانڈوز نے بھی حصہ لیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران 4 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔

بعدازاں آئی ایس پی آر ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ یونیورسٹی سے فائرنگ کی آوازیں آنا بند ہوگئیں جبکہ پاک فوج کے جوانوں نے کلیئرنس آپریشن کا آغاز کردیا۔

انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق 8 سے 10 دہشت گرد یونیورسٹی کے اندر موجود تھے، جبکہ زیادہ تر دہشت گردوں کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان بتائی گئیں.

ذرائع کے مطابق 4 حملہ آوروں نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں، تاہم وہ پھٹنے سے قبل ہی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔

آرمی چیف کا دورہ

20 افراد ہلاک

شعبہ کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر حامد حسین—۔ڈان نیوز

ڈی آئی جی سعید وزیر نے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے نتیجے میں 20 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر طلبہ کو کیمپس میں واقع بوائز ہاسٹل میں گولی ماری گئی.

سعید وزیر نے شعبہ کیمسٹری کے اسسٹنٹ پروفیسر حامد حسین کے ہلاک ہونے کی بھی تصدیق کی۔

چارسدہ کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے تصدیق کی کہ ہسپتال میں 15 لاشیں لائی گئیں۔

اس سے قبل ایک ایدھی رضاکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں تقریباً 15 لاشیں دیکھی ہیں۔

ریسکیو 1122 ذرائع کے مطابق یونیورسٹی سے 70 فیصد افراد کو ریسکیو کرلیا گیا.

واقعے کے زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال، چارسدہ منتقل کردیا گیا جبکہ علاقے کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔

باچا خان یونیورسٹی کی ایک استاد کو ریسکیو کیا جارہا ہے—۔فوٹو/ رائٹرز

'50 سے 60 افراد زخمی'

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے حملے میں 50 سے 60 افراد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا جانا مناسب نہیں، دہشت گردی کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے جس کا ہم سب کو متحد ہوکر مقابلہ کرنا ہوگا۔

عینی شاہدین کے تاثرات

ایک عینی شاہد کے مطابق حملہ تقریباً 9 بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا اور دہشت گردوں نے فائرنگ کے ساتھ دھماکے کیے۔

عینی شاہد کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی پچھلی دیوار چھوٹی ہے، جس کے باعث حملہ آور باآسانی اسے پھلانگ کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔

ایک اور عینی شاہد نے بتایا کہ دہشت گردوں کا پہلے یونیورسٹی گارڈز سے مقابلہ ہوا جس میں 3 گارڈز زخمی ہوئے، بعد میں پولیس وہاں پہنچ گئی، دہشت گرد یونیورسٹی میں داخل ہوکر مختلف اطراف میں پھیل گئے۔

'ہماری مدد کریں'

ڈان نیوز سے ٹیلی فون کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی میں موجود ایک خاتون نے مدد کی درخواست کی اور بتایا کہ یونیورسٹی میں شدید فائرنگ ہورہی ہے۔

باچا خان یونیورسٹی حملے کے متاثرہ طالب علم کو اس کا ایک رشتہ دار تسلی دے رہا ہے—۔فوٹو/ رائٹرز

'حملہ، آرمی پبلک اسکول جیسا معلوم ہوتا ہے'

ایک ریسکیو اہلکار نے عینی شاہد طلبہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حملہ پشاور اسکول طرز کا حملہ لگتا ہے اور دہشت گردوں نے یونیورسٹی میں اندھا دھند فائرنگ کی۔

'دہشت گرد دیوار پھلانگ کر آئے'

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے چارسدہ کے رکن صوبائی اسمبلی ارشد علی کا کہنا تھا کہ فائرنگ کی آوازوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کی تعداد زیادہ ہے، جو دیوار پھلانگ کر یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔

وزیراعظم کی مذمت

وزیراعظم نواز شریف نے باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ دہشت گردوں کا جلد خاتمہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ معصوم طلبہ اور شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کا کوئی دین اور مذہب نہیں اور ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔

دیگر شخصیات کی مذمت

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے حملے کے بعد اپنا دورہ امریکا مختصر کرکے وطن واپس پہنچنے کا اعلان کیا۔

پرویز خٹک کا باچا خان یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

گورنر خیبر پختونخوا سردار مہتاب عباسی نے بھی یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قوم دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

مہتاب عباسی کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں پولیس اور یونیورسٹی کی سیکیورٹی تعینات تھی اور سیکیورٹی اسٹاف کی تربیت کی جارہی کہ وہ کیسے کوئیک رسپانس کرے۔

باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد خان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہوگئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہو کر دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑپھینکنا ہوگا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ادارے پر حملہ انتہائی افسوسناک ہےاور مشکل کی اس گھڑی میں طلبا اور والدین کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سیاست نہ کی جائے، سیکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

عمران خان نے متعلقہ حکام کو زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔

واضح رہے کہ بدھ کی صبح سیکیورٹی فورسز نے اطراف کے علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران 4 ملزمان کو گرفتار کیا تھا جن کے قبضے سے اسلحہ اور فوج اور سیکیورٹی فورسز کے یونیفارم بھی برآمد ہوئے تھے.

باچاخان یونیورسٹی کا ایک منظر—۔فوٹو/ بشکریہ یونیورسٹی فیس بک پیچ

صوبے میں تعلیمی اداروں پر حملوں پر ایک نظر

خیبرپختونخوا کے تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے بھی سیکیورٹی خدشات اور دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد پشاور میں کینٹ کے علاقہ نوتھیہ اور شہر میں واقع سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کردیا گیا تھا.

مزید پڑھیں:سیکیورٹی خدشات: پشاور کے اسکول بند

اس سے قبل 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 130 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے سے قبل اور بعد میں بھی ملک بھر میں اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ

آرمی پبلک اسکول پر حملے سے 2 ماہ قبل پشاور میں ہی ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا، یکم اکتوبر 2014 کو بم حملے میں اسکول کی خاتون ٹیچر ہلاک اور 2 بچے زخمی ہوئے تھے۔

پاک افغان سرحد پر واقع کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں 18 نومبر 2014 کو ایک اسکول وین کو بم سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں گاڑی کا ڈرائیور اور ایک بچہ ہلاک ہوا تھا۔

تین ماہ قبل 29 اکتوبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں چارسدہ میں شبقدر کے علاقے میں 2 سرکاری اسکولوں کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کی، ان اسکولوں میں لڑکیوں کا اسکول بھی شامل تھا، تاہم اس فائرنگ سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔

دو ماہ پہلے 3 نومبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں ہی نوشہرہ میں 3 حملہ آوروں نے ایک گرلز اسکول کے باہر ہوائی فائرنگ کی تھی، خیبر پختونخوا میں اسکولوں کے باہر فائرنگ کرنے والے افراد کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

Read Comments