خان صاحب بیگو خان، نور مشکرو عرف نور نمازی، محمد مشکرو اور نتھو کیھری کے نام تو کم ہی لوگوں نے سنے ہوں گے، کئی لوگوں کو پتہ بھی نہیں ہوگا کہ یہ کون ہیں۔
البتہ اسرانی، جونی لیور، رنگیلا، لہری، ننھا، عمر شریف، ملک انوکھا، معین اختر، شکیل صدیقی، راجو شریواستو، کیکو شردھا اور کپیل شرما کے ناموں سے کئی لوگ واقف ہیں، اور یہ بھی پتا ہے کہ وہ سب مزاحیہ اداکار ہیں۔
یہ مزاحیہ اداکار یا فنکار جو کہانیوں اور ڈراموں کے ذریعے پیدا کیے جاتے ہیں، ان سے اسکرپٹ پڑھوا کر ان ہی کی مرضی کے کردار ادا کروائے جاتے ہیں، لیکن ان مزاحیہ فنکاروں کے آنے سے قبل ان مسخروں کا پوری دنیا پر راج تھا جن کے پاس کوئی اسکرپٹ نہیں ہوا کرتی تھی۔
یہ مسخرے کہیں سے تربیت نہیں لیتے تھے، بلکہ مزاح کی حس کے ساتھ پیدا ہوتے۔ جب وہ اپنا فن پیش کرتے تو اپنی مرضی کے مالک ہوتے: لکھاری بھی خود، ایڈیٹر بھی خود، ہدایتکار بھی خود اور پیشکار بھی خود تھے، یا اب بھی ہیں۔
سندھ میں کئی مسخرے چلتے پھرتے سراپا تمسخر تھے۔ ان کی ہر ادا، حرکت، ہر جملہ ایک کہانی کی مانند تھا۔
لوک دانش عام فہم انسانوں کا عقلی فلسفہ ہے جس کو کسی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی کبھی ضرورت نہیں رہی۔ جن کو ہم مسخرے کہتے ہیں وہ دھرتی کے جنمے یعنی دھرتی کے بیٹے ہوتے ہیں، اور وہی لوک دانش کے داعی کہلانے کے صحیح حقدار بھی، جو مذاق ہی مذاق میں ایسی کئی باتیں کہہ جاتے ہیں جنہیں معاشرہ سنجیدگی سے سننے کی تاب نہیں رکھتا۔
میں نے پنجاب کے ان بھانڈوں کی جگتیں بھی سنیں ہیں جنہوں نے شادیوں یا عام مقامات پر بغیر لالچ کے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو خوشیوں کے ہزاروں پل مہیا کیے ہیں۔