کسٹم انسپکٹر قتل کیس: ایان علی کے وارنٹ گرفتاری
راولپنڈی: راولپنڈی کی مقامی عدالت نے کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کیس میں سپر ماڈل ایان علی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ملزمہ کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔
علاقہ مجسٹریٹ گلفام لطیف نے ماڈل ایان علی کے خلاف مقتول کسٹم انسپکٹر کی بیوہ صائمہ اعجاز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت کی۔
صائمہ اعجاز کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایان نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ذریعے مبینہ طور پر کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کا قتل کروایا، جبکہ ایک سال گزرنے کے باوجود پولیس نے متقول کے بھائیوں سمیت ان کا بیان قلمبند نہیں کیا۔
عدالت کے حکم پر پولیس نے بیان قلمبند کیا، جس میں مقتول کی بیوہ نے الزام لگایا کہ ان کے متقول خاوند ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کیس کے عینی شاہد تھے اور کیس کی تحقیقات بھی وہی کر رہے تھے۔ متقول کسٹم انسپکٹر نے ان کی مرضی کے مطابق تفتیش کا رخ نہ بدلا جس پر مبینہ طور پر انھیں قتل کردیا گیا۔
صائمہ اعجاز نے الزام لگایا کہ سپرنٹنڈنٹ زرغام بھی ملزمہ کے ساتھ قتل میں ملوث ہیں جبکہ ڈاکٹر ہارون نے مقتول کسٹم انسپکٹر کی پوسٹمارٹم رپورٹ مبینہ طور ایان علی کی مرضی کے مطابق بنائی۔
پولیس کے ماڈل سے رابطہ کرنے پر ایان علی نے اپنا تحریری بیان وارث خان پولیس کو بھجوا دیا تھا، جسے عدالت نے مسترد کردیا اور تینوں ملزمان کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے انھیں 10 دن کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں:ایان کا نام ای سی ایل میں دوبارہ ڈالنے پراٹارنی جنرل طلب
ایان علی کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالے جانے سے متعلق توہین عدالت کیس کی گذشتہ ماہ ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پنجاب ہوم ڈپارٹمنٹ کی درخواست پر ماڈل کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالا گیا کیونکہ وہ کسٹمز آفیسر اعجاز محمود کے قتل کیس میں بھی نامزد ہیں۔
ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ایان کا نام
یاد رہے کہ ایان علی نے دسمبر 2015 میں عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ای سی ایل سے نام نکالنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ایان کا نام ای سی ایل میں ہونا غیرقانونی ہے کیونکہ انتظامیہ ان کا پاسپورٹ واپس کرچکی ہے۔
جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے 7 مارچ 2016 کو سپر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
11 اپریل کو ان کا نام فہرست سے نکال دیا گیا تھا، جس کے بعد وزارت داخلہ اور کسٹمز حکام نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے 13 اپریل 2016 کو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
25 اپریل کو ایان علی کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سپرماڈل کو ای سی ایل میں دوسری بار نام شامل کیے جانے پر سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایان علی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے 2 جون 2016 کو ایک بار پھر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم ایڈووکیٹ فیض الرحمان کے توسط سے دائر کی جانے والی نئی درخواست میں وزارت داخلہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ دو جون کا ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق قابل عمل نہیں کیونکہ سپرماڈل کا نام اس لسٹ میں ای سی ایل قوانین 2010 کے تحت شامل کیا گیا تھا اور ای سی ایل پالیسی کی توثیق 16 ستمبر 2015 کو کی گئی۔
بعدازاں 15 جون 2016 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حکام نے ایان علی کو کراچی ائیرپورٹ سے بیرون ملک جانے والی پرواز میں سفر کرنے سے روک دیا تھا۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سے امیگریشن حکام کو ایان علی کا نام نکالنے کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن موصول نہیں ہوا لہذا سپرماڈل کو بیرون ملک پرواز میں سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ڈان نیوز کے مطابق ایان علی جو منی لانڈرنگ الزامات کا سامنا کررہی ہیں، کا نام تو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے سندھ ہائیکورٹ کے حکم سے نکال دیا گیا تھا تاہم انہیں دبئی جانے والی پرواز میں سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔
ایان علی کی گرفتاری
یاد رہے کہ سپرماڈل کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیرون ملک جارہی تھیں اور اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر 5 لاکھ 6800 ڈالرز پاکستان سے باہر لے جارہی تھیں جس کے حوالے سے وہ کوئی قانونی جواز بھی نہیں پیش کرسکیں۔
گزشتہ سال نومبر میں ایک کسٹم عدالت نے سپرماڈل پر خلاف پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد رقم بیرون ملک اسمگل کرنے کی کوشش کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی تھی جس میں اب تک وہ قصور وار ثابت نہیں ہوئی۔
سپرماڈل کو گزشتہ سال جولائی میں ضمانت پر رہائی ملی تھی جس سے قبل انہوں نے چار ماہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں گزارے جس دوران ان کے عدالتی ریمانڈ کی مدت میں سولہ بار توسیع کی گئی۔