ایک گمشدہ شہر کا منظرنامہ
کراچی وہ شہر تھا جہاں کی فضا میں راحت بھرا سکون ہوا کرتا تھا۔ سڑکوں کے کنارے لگے درخت آنے جانے والوں کو ٹھنڈی چھاؤں مہیا کرتے تھے۔ گلیاں مکینوں کے قہقہوں سے گونجا کرتی تھیں۔ شہر کے سارے راستے خوشی کے سمندر میں جا اترتے تھے۔
بادِ صبا اور ماہِ شب کے پُرکیف لمحوں کا ہجوم آنکھوں پر رُکا رہتا تھا۔ یہ ایک جمالیاتی جزیرہ تھا جس کو شہر والے آباد رکھتے تھے۔ یہاں خواب دیکھنے والے لوگ بستے تھے جن کے دلوں میں امن، محبت اور اخوت کا درس پنہاں تھا، اور جو ہمہ وقت باہر سے آنے والوں کے استقبال کو تیار رہتے تھے۔
چائے کی چسکیوں پر دانشور اپنے ہم فکر ذہنوں پر خیالات نچھاور کرتے تھے۔ مہمان خانوں میں پکوان کی خوشبوئیں رشتوں کے مضبوط بندھن کا پتہ دیتی تھی۔ یہاں وہ لوگ بستے تھے، جن کے ذہن فرقہ ورانہ اور لسانی تعصبات سے پاک تھے۔ یہ شہر حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر تھا، جب تک اس کی ڈور سیاسی مداریوں کے ہاتھ میں نہ تھی۔ شہر کا غالب طبقہ اہلِ علم کا تھا، جن کے خیالات کی روشنی سے صرف ذہن و دل ہی نہیں، روح بھی منور ہو جایا کرتی تھی۔
وقت نے لاکھ ستم ڈھائے ہوں، مگر جمالیات اور ادب کے ماننے والے اپنے ہونے کا جواز بنائے رکھتے ہیں۔ ماضی سے حال تک ایسی علامتیں جا بجا بکھری ہوئی ہیں، جن کو سمیٹنے سے ایک احساس شدت سے پیدا ہوا۔ یہ وہ شہر نہیں، جس سے ہم واقف تھے، یہ وہ شہر ہے، جس سے ہم لاعلم تھے۔ شائستہ لہجے، تہذیبی رویے، احترامِ آدمیت اس کا حوالہ تھے۔ اس شہر کی روشنیوں کو سیاسی تاریکیوں نے نگل لیا، پھر بھی اہلِ علم نے اس ماحول میں سنگت اور میل ملاپ کی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ تصور کے ان ٹکڑوں کو جوڑا جائے تو شہر کی پرانی تصویر پھر سے بننے لگتی ہے۔
تصور کیجیے، ایرانی کیفے عوام سے بھرے ہوئے ہیں، مختلف موضوعات پر مکالمہ ہو رہا ہے، شہر بھر کے دانشور، ادیب، فنکار ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کو اکٹھے ہوئے ہیں۔ چائے اور کافی کا دورچل رہا ہے۔ ادبی جرائد سے لے کر فلموں کی کہانیوں تک سب کچھ زیرِ بحث ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر خریداروں کا رش ہے۔ سینما میں فلموں کے شو ہاؤس فل ہیں، آرٹ گیلریوں میں ایک سے بڑھ کر ایک فن پارہ نمائش کے لیے آویزاں ہے، اس کی چاہ میں دیوانے ہوجانے والے بھی دیکھنے کو آئے ہیں۔ لائبریریوں میں طلباء پڑھائی میں مصروف ہیں۔ شام ڈھلے بچے پارکوں میں اپنے خاندان کے ہمراہ کھیل کود میں مصروف ہیں۔ رات کی میٹھی چاندنی سے ہوٹلوں کی راہداریاں روشن ہیں۔ ثقافتی سرگرمیوں کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔