فتح باغ، جہاں اب کوئی باغ نہیں
فتح باغ، جہاں اب کوئی باغ نہیں
ہم تاریخ میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم ماضی کو بھلانا نہیں چاہتے۔ یا شاید اس لیے کہ انسان کی سرشت میں گذرے وقت کے گذر جانے کا ایک درد کسی بیج کی طرح اُگتا رہتا ہے جس کی افزائش صدیوں تک پھیلی ہوتی ہے۔
جیسے جیسے اس گذرے وقت پر برسوں کی ریت جمع ہوتی جاتی ہے اُس کے اسرار اور رنگین ہوتے جاتے ہیں اور ان رنگوں میں جو ایک پنہاں کشش ہوتی ہے، وہ ہمیں اپنی طرف بلاتی رہتی ہے۔ تپتی دوپہروں، ویران شاموں اور سرد شب و روز میں اُن کی کشش میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔
کشش کا یہ دھاگا مجھے بھی فتح باغ لے گیا۔ آپ اگر حیدرآباد سے بدین کی طرف چلیں تو ماتلی سے کچھ کلومیٹر آگے انصاری شوگر مل سے مغرب کی طرف ایک لنک روڈ نکلتا ہے جو آپ کو وہاں تک لے جائے گا۔
گذشتہ برس میں جب وہاں پہنچا تو دسمبر کا مہینہ تھا، آسمان پر ہلکے بادل تھے اور اُس دن شمال کی ٹھنڈی ہوائیں تھیں جو چلتیں اور ٹھنڈ اور مٹی کو اپنے ساتھ لاتیں۔ پیلو اور کیکر کے درخت اس ہوا کی تیزی کی وجہ سے اپنا سر ایسے دھنتے جیسے کسی ردھم پر ایک مستی میں جھول رہے ہوں۔ ہر موسم کی اپنی مستی ہے۔ زمینوں سے دھان کب کی کٹ چکی تھی، اُس کی جگہ گندم کے ننھے ہرے پودے نیلے گہرے امبر کو تکتے، کہ جاڑوں میں امبر کا رنگ نکھر سا جاتا ہے۔