فتح باغ، جہاں اب کوئی باغ نہیں

فتح باغ، جہاں اب کوئی باغ نہیں

ابوبکر شیخ

ہم تاریخ میں دلچسپی کیوں لیتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم ماضی کو بھلانا نہیں چاہتے۔ یا شاید اس لیے کہ انسان کی سرشت میں گذرے وقت کے گذر جانے کا ایک درد کسی بیج کی طرح اُگتا رہتا ہے جس کی افزائش صدیوں تک پھیلی ہوتی ہے۔

جیسے جیسے اس گذرے وقت پر برسوں کی ریت جمع ہوتی جاتی ہے اُس کے اسرار اور رنگین ہوتے جاتے ہیں اور ان رنگوں میں جو ایک پنہاں کشش ہوتی ہے، وہ ہمیں اپنی طرف بلاتی رہتی ہے۔ تپتی دوپہروں، ویران شاموں اور سرد شب و روز میں اُن کی کشش میں بے تحاشا اضافہ ہو جاتا ہے۔

کشش کا یہ دھاگا مجھے بھی فتح باغ لے گیا۔ آپ اگر حیدرآباد سے بدین کی طرف چلیں تو ماتلی سے کچھ کلومیٹر آگے انصاری شوگر مل سے مغرب کی طرف ایک لنک روڈ نکلتا ہے جو آپ کو وہاں تک لے جائے گا۔

گذشتہ برس میں جب وہاں پہنچا تو دسمبر کا مہینہ تھا، آسمان پر ہلکے بادل تھے اور اُس دن شمال کی ٹھنڈی ہوائیں تھیں جو چلتیں اور ٹھنڈ اور مٹی کو اپنے ساتھ لاتیں۔ پیلو اور کیکر کے درخت اس ہوا کی تیزی کی وجہ سے اپنا سر ایسے دھنتے جیسے کسی ردھم پر ایک مستی میں جھول رہے ہوں۔ ہر موسم کی اپنی مستی ہے۔ زمینوں سے دھان کب کی کٹ چکی تھی، اُس کی جگہ گندم کے ننھے ہرے پودے نیلے گہرے امبر کو تکتے، کہ جاڑوں میں امبر کا رنگ نکھر سا جاتا ہے۔

فتح باغ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
فتح باغ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

فتح باغ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
فتح باغ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

تاریخ کی کتابوں میں فتح باغ کو بڑی اہمیت حاصل رہی۔ 1758 تک یہ تب تک سرسبز اور آباد رہا جب تک دریائے سندھ نے عادت کے مطابق اپنا بہاؤ تبدیل نہیں کیا۔ فتح باغ کا کوٹ (قلعہ) اپنی الگ حیثیت اس لیے بھی رکھتا تھا کہ اس کے جنوب میں کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر بیوپار کا بڑا مرکز ’جون‘ کا شہر تھا جو کپاس کے بیوپار میں مشہور تھا۔

میں نے جب اس شہر اور کوٹ پر کام شروع کیا تو لوگوں سے باتوں باتوں میں ایک کہاوت مجھے ملی۔ اس کہاوت میں اگر آپ ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو اُس زمانے کے جنوبی سندھ کے مشہور شہروں کا ذکر اُن کی مقبولیت کے ساتھ مل جائے گا۔ کہاوت ہے:

"نرت نورائي، نار نصرپور، ڦل فتح باغ، هلي ڏسو جوڻ، جتي ڪپهه جو واپار"

مطلب اگر ’’اچھا شہر دیکھنا ہو تو نورائی (ٹنڈو محمد خان کے قریب ایک شہر) دیکھو، اگر پانی نکالنے کی چکیاں دیکھنی ہوں تو نصرپور میں دیکھو۔ میوے اور پھول دیکھنے ہوں تو فتح باغ دیکھو اور اگر کپاس کا بیوپار دیکھنا ہو تو جُون میں جا کر دیکھو۔‘‘


مرزا شاہ حسن جو 1542 میں بکھر کے قلعے میں تھا، نے مُلا درویش محمد انبار دارا کو سلطان محمود کے گھر کے سامنے پھانسی پر لٹکایا اور دو سپہ سالاروں ’ھالو‘ اور ’عمر شاہ‘ کی کھال کھنچوائی۔ ان دنوں اسی بادشاہی شغل میں مشغول تھا کہ اچانک پتہ لگا کہ ہمایوں عمر کوٹ سے اُچ کے لیے نکلا ہے، لہٰذا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دن رات کرتا ٹھٹھہ پہنچا۔

تاریخِ معصومی کے مصنف میر محمد معصوم بکھری لکھتے ہیں: "عمر کوٹ میں لشکر کو زیادہ دن برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی، اس لیے (ہمایوں کے) امیروں نے سندھ چلنے کا ارادہ ظاہر کیا (عمرکوٹ کو وہاں کے رہن سہن اور جغرافیے کی وجہ سے تاریخی طور پر راجستھان کا حصہ مانا جاتا تھا: مصنف)۔ کچھ ہی دنوں میں وہ فتح باغ (جون) پہنچے۔ یہ پر فضا مقام دریائے سندھ کے کنارے پر واقع تھا۔ باغات اور نہروں کی بہتات تھی، میوہ جات، پھولوں کی لطافت اور تازگی کے سبب یہ پورے سندھ میں اپنی ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔"

ہمایوں نے کچھ دنوں کے بعد اپنے اہلِ خانہ کو، جو عمرکوٹ میں تھے، یہاں بلا لیا۔ ہمایوں نامہ کی مصنفہ گلبدن بیگم تحریر کرتی ہیں کہ: "فتح باغ سے ٹھٹھہ چھے دنوں کی دوری پر ہے۔ یہاں آموں اور دوسرے میووں کے اچھے اور خوبصورت باغ ہیں۔ حضرت (ہمایوں) یہاں چھ ماہ رہے اور پھر اہلِ حرم، اُمرا اور باقی لوگوں کو وہاں بُلوا لیا۔ اس وقت جلال الدین محمد اکبر کی عمر چھے ماہ کی تھی۔"

فتح باغ میں میروں کا قبرستان۔— فوٹو ابوبکر شیخ
فتح باغ میں میروں کا قبرستان۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مقبروں پر کی گئی سنگتراشی اپنی مثال آپ ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مقبروں پر کی گئی سنگتراشی اپنی مثال آپ ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مقبرے کا داخلی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مقبرے کا داخلی دروازہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

اکبر نے آنکھیں عمر کوٹ میں کھولیں اور اپنے جیون کے ابتدائی قدم فتح باغ کی زمین پر اُٹھائے۔ ہمایوں اور حمیدہ بانو بیگم کے لیے یہ زندگی کے یادگار لمحے رہے ہوں گے۔ کاش گلبدن بیگم اس اہم موقع پر ہمایوں کے ساتھ ہوتیں تو ان لمحوں کو وہ ضرور ہمارے سامنے لے آتیں۔

یہ وہ شب و روز تھے جو ہمایوں پر بہت بھاری گذرے۔ قسمت کی سنگدلی تو یہ تھی کہ بابر بادشاہ کے خاندان کے لیے مرزا شاہ حسن کوئی غیر نہیں تھا، مگر تخت کا خواب وہ بدبخت خواب ہے جس کی تعبیر پانے کے لیے رشتوں اور ناطوں کی فصلوں کو گھوڑوں کے سموں کے نیچے روندنا پڑتا ہے۔ بابر کی بیوی ماہم بیگم، جس پر بابر نے کبھی دھوپ پڑنے نہیں دی، وہ اپنے بیٹے ہمایوں کے ساتھ تھر کے ریگزاروں میں بے نام ہو کر رہ گئی۔ مرزا حسن ہمایوں سے ڈرتا بھی تھا مگر اُس نے ہمایوں کو پریشان کرنے کی کوئی ترکیب نہیں چھوڑی۔

ہمایوں تقریباً ایک برس کے قریب فتح باغ میں رہا۔ اس دوران شاہی اور ارغونی لشکر کی آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ شاید ایسا کوئی ماہ نہیں گزرا جب جنگ کے نتیجے میں دھرتی خون سے سُرخ نہ ہوئی ہو۔ آخر 1543 میں بیرام خان گجرات سے بچتا بچاتا بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شاہ حسن سے صلح کرنے کا خیال پیش کیا۔

ہمایوں خود بھی اس مسلسل پریشان اور مایوس کرنے والی صورتحال سے بیزار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے صلح کے لیے راضی ہوا۔ ایک لاکھ گینیاں (اُس وقت کا مروجہ سکہ)، سفر کا سامان، تین سو گھوڑے اور تین سو اُونٹ دینے پر صلح ہوئی اور اس سامان کے پار کرنے کے لیے پل تعمیر کروایا گیا۔ بادشاہ نے صلح اور پُل بنانے پر تاریخ صراط المستقیم سے معلوم کی جو 950 ہجری ہے۔ بادشاہی لشکر جو سندھ میں دو تین برس تک رہنے کی وجہ سے تنگ ہوچکا تھا، وہ بڑا خوش ہوا اور جشن منایا۔ بادشاہ 1543 میں اس پل سے گذر کر قندھار کی طرف روانہ ہوا۔


مرزا کامران بابر کا بیٹا تھا اور گل رُخ سے تھا۔ ابو نصر ہندال بھی بابر کا بیٹا تھا اور دلدار بیگم سے تھا۔ مرزا کامران کوئی مثبت سوچ رکھنے والا انسان نہیں تھا۔ ہمایوں اس سے ہمیشہ بہتر چلا مگر مرزا کامران مسلسل بغاوتوں کا ارتکاب کرتا رہا۔ 1543 میں جب ہمایوں سندھ سے پھر عراق روانہ ہوا تو مرزا کامران نے میر اللہ دوست اور بابا چوچک کو مرزا شاہ حسن کی طرف اس کی بیٹی کا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجا۔ مرزا شاہ حسن نے کامران مرزا کی یہ مانگ مان لی۔

ہمایوں نے پاٹ کے شہر میں 1541 میں حمیدہ بانو بیگم سے شادی کی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ تین برس کے بعد اسی شہر میں ہمایوں کے سوتیلے بھائی کامران مرزا نے شاہ حسن کی بیٹی چوچک بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد ہمایوں یہاں تین دن رہا البتہ کامران مرزا یہاں تین ماہ رہا۔ اس شادی کے بعد کامران مرزا اپنی باغیانہ طبیعت لے کر پھر کابل گیا اور اسی دوران اس نے موقع پا کر اپنے سوتیلے بھائی ہندال کو قتل کر دیا۔

کامران مرزا کا یہ عمل اس کی منفی سوچ کی آخری سرحد تھی۔ خاندانی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب اسے قتل کر دیا جائے، مگر ہمایوں نے اس کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی، اور مرزا کامران اپنے غیر انسانی اور منفی کارناموں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ کر بے نُور آنکھیں لیے اپنی بیوی چوچک بیگم کے ساتھ سندھ لوٹ آیا۔

فتح باغ میں میر تالپوروں کے کئی مقبرے موجود ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
فتح باغ میں میر تالپوروں کے کئی مقبرے موجود ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

پتھروں پر موجود نقش و نگار اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
پتھروں پر موجود نقش و نگار اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

خزانوں کی تلاش میں لوگوں نے مقبروں کا برا حال کر دیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
خزانوں کی تلاش میں لوگوں نے مقبروں کا برا حال کر دیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مرزا شاہ حسن نے اپنے آنکھوں سے محروم داماد اور بیٹی کو فتح باغ کے کوٹ میں رہائش دی۔ تمام مؤرخین لکھتے ہیں کہ چوچک نے اندھے شوہر کا ساتھ دیا اور ہمایوں کے ملازمین میں سے ایک شخص چلمہ بیگ فتح باغ کے کوٹ میں کامران مرزا کی خدمت میں مامور تھا۔ دو برس تک کامران مرزا فتح باغ میں رہا اور اس کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ مکہ شریف چلا گیا۔

ترخان نامہ کے مصنف سید میر محمد لکھتے ہیں: "مرزا شاہ حسن نے 1555 میں وفات پائی تو ٹھٹھہ کے تخت پر مرزا عیسیٰ خان ترخان بیٹھا جو اس سے پہلے فتح باغ کا سردار تھا اور وہاں ہی رہتا تھا۔ یہ ایک شائستہ، صابر اور اچھا انسان تھا۔" یہ دوسری بات ہے کہ یہ وصف اُس کی اولاد میں منتقل نہ ہوسکے۔

میں جب یہ سارے خوشگوار حوالے لے کر فتح باغ پہنچا تو درد اور تکلیف کی ایک لہر میرے دل سے اُٹھی اور دور دور تک پھیلتی چلی گئی۔ وہ حقائق جو تاریخ کی کتابوں میں آپ کو زندہ جاوید ملتے ہیں، اب یہاں بے قدری کے ہاتھوں ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ جہاں باغ ہوتے ہوں گے، وہاں اب یا تو ویرانی اور خاردار جھاڑیاں ہیں، یا لوگوں نے ہل چلا دیے ہیں۔ بس قدیم بہاؤ کے نشان ہیں جہاں سے سندھو بہتا تھا۔ قلعہ مکمل طور پر ڈھیر ہو کر ایک ٹیلے میں تبدیل ہوگیا ہے جس پر مسلسل لوگ گھر بناتے جاتے ہیں۔

قلعے کی سائٹ سے مغربی طرف دریائے سندھ کا قدیم بہاؤ تھا جہاں 1592 میں اکبر بادشاہ کا بھیجا ہوا، خانِ خاناں عبدالرحیم بن بیرام خان، مرزا جانی بیگ سے صلح کی بات چیت کرنے اس بہاؤ کے گھاٹ پر اُترا ہوگا اور اس شاندار قلعے میں گیا ہوگا۔ میر معصوم بکھری چوں کہ خانِ خاناں کے ساتھ تھا، وہ لکھتا ہے؛ "جب خانِ خاناں اور جانی بیگ میں آخرکار صلح ہوئی تو ملاقات فتح باغ میں رکھی گئی اور فتح باغ میں خوب صحبت رہی۔"

قلعے کی جنوبی طرف مغل دور کی بنائی گئی مسجد کی ایک دیوار اور ساتھ میں کچھ ستونوں کے نشان رہ گئے ہیں۔ یہ اس شاندار قلعے کی واحد مسجد تھی جہاں وقت سے ہارے ہوئے کئی بادشاہوں نے سر جھکایا ہوگا۔ مسجد کا محراب والا حصہ اب بھی موجود ہے جس پر مقامی لوگوں نے چھت ڈال کر اسے محفوظ کر لیا ہے، اور مسجد کو آباد رکھا ہے۔ یہ اپنے زمانے میں یقیناً ایک خوبصورت مسجد رہی ہوگی۔

مسجد کی موجودہ حالت۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کی موجودہ حالت۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مسجد کی موجودہ حالت۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کی موجودہ حالت۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مسجد کا باقی بچ جانے والا ایک ستون۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد کا باقی بچ جانے والا ایک ستون۔— فوٹو ابوبکر شیخ

مسجد تو برباد ہوگئی ہے البتہ محراب کو بچا لیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ
مسجد تو برباد ہوگئی ہے البتہ محراب کو بچا لیا گیا ہے۔— فوٹو ابوبکر شیخ

آپ اگر قلعے کے آثاروں پر سے چار طرف دیکھیں تو خود کو ایک ٹیلے پر کھڑا محسوس کریں گے۔ اس ٹیلے پر سے آپ دور دور تک کے منظر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر جنوب کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو کچھ مقبرے نظر آئیں گے۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اپنی کتاب میں ان مقبروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ: "یہ مقبرے ٹنڈو محمد خان کے میروں کے ہیں جو اینٹوں اور چونے سے تعمیر کیے ہوئے ہیں، البتہ ایک مقبرہ پتھر کا ہے جس کا گنبد نہیں ہے۔ اس مقبرے میں سارے پتھروں پر سنگتراشی کا اچھا کام کیا ہوا ہے۔ اس مقبرے میں چار قبریں ہیں جن پر کتبے لگے ہوئے ہیں، مقبرے کے مرکزی دروازے پر یہ کتبہ لگا ہوا ہے۔

"تاریخ تعمیر روضہ منور مرحوم میر محمد خان بلوچ عرف تالپر نوراللہ مرقدہ 1212ھ"

کیوں کہ 220 برس پہلے تعمیر کیے ہوئے اس مقبرے میں اچھا پیلا پتھر استعمال ہوا ہے، اس لیے معقول شکل میں موجود ہے اور خاردار جھاڑیوں کے جنگل اس کے چار طرف بھی اُگ آیا ہے۔ زر کی تلاش والوں نے ان قبروں کو بھی نہیں بخشا اور اب مقبرے کے اندر ان چاروں قبروں میں سے ترتیب سے کچھ نہیں رہا۔

ایک بڑا گڑھا کھدا ہوا ہے۔ قبروں کے کتبے اور پتھر کچھ مقبرے میں ہیں اور کچھ مقبرے کے باہر۔ مقبرے کی دیواروں پر جو سنگتراشی کا کام ہے وہ انتہائی نازک، نفیس اور خوبصورت ہے۔ کام کی اتنی نزاکت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس مقبرے پر بے قدری کی جھاڑیاں دیکھ کر آپ کو افسوس ہوگا، مگر جب تراشیدہ پھول، پتیوں اور گلدانوں کو آپ دیکھتے ہیں تو اس فن کی نزاکت و نفاست دیکھ کر روح خوش ہوجاتی ہے۔ ایک بے جان پتھر جس کی کوئی حیثیت نہیں مگر جب فنکار کی محبت اس کو تراشتی ہے تو اس کا حسن صدیوں کی آنکھوں میں پھولوں کے بیجوں کی طرح اگ آتا ہے، اور ان پھولوں پر کبھی خزاں کا موسم نہیں آتا۔

فتح باغ میں ایک مقبرہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ
فتح باغ میں ایک مقبرہ۔— فوٹو ابوبکر شیخ

میروں کے مقبروں میں صرف چند قبریں ہی سلامت باقی بچی ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
میروں کے مقبروں میں صرف چند قبریں ہی سلامت باقی بچی ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

میروں کے مقبروں میں صرف چند قبریں ہی سلامت باقی بچی ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ
میروں کے مقبروں میں صرف چند قبریں ہی سلامت باقی بچی ہیں۔— فوٹو ابوبکر شیخ

ڈاکٹر غلام علی الانا نے اس سائٹ کا وزٹ شاید 1960 کے بعد کیا تھا۔ آدھی صدی نے اب یہاں کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔ اینٹوں کے سارے مقبرے گر کر اینٹوں کے سرخ ڈھیروں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور اینٹوں کے ان ڈھیروں پر خاردار جھاڑیوں کا جنگل اُگ آیا ہے، البتہ ایک دو ایسے اینٹوں والے گرتے مقبروں کو بچانے کے لیے اُن پر لیپا پوتی کا کام چل رہا تھا۔

اس قبرستان سے کچھ کلومیٹر جنوب کی طرف چلے جائیں تو جون شہر کے وہ ویران آثار آپ کو ملیں گے جہاں اپنے وقت میں کپاس کا بڑا بیوپار ہوتا تھا مگر اب خاموشی، ویرانی اور بے قدری کا بیوپار ہوتا ہے۔ ذرا تصور کریں ایک بڑا شہر، اُس کے بازار، بہاؤ کے کناروں پر کشتیوں کی آمد و رفت، اس شہر کے جنوب میں ایک باغ جہاں کے آموں کی شیرینی کا چرچا دہلی کی دربار میں ہوتا تھا، جہاں کی خوبصورتی کا تذکرہ ہمایوں نامہ سے لے کر آئینِ اکبری اور ترخان نامہ کے صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ بس تذکرہ ہی پھیلا ہے، باقی ماضی کے مزاروں کو برباد کرنے کی تو ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر حال میں ان کو برباد ہی کرنا ہے۔

تاریخی مقامات کی یہ کیفیت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ایک بے بسی یہ کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے اور دوسری بے بسی یہ کہ ادارے سب کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں کر رہے۔ دھیرے دھیرے سب کچھ برباد ہو کر رہ جائے گا اور جب جب جہاں جہاں ماضی سے رشتہ ٹوٹا ہے وہ کبھی اچھا شگون ثابت نہیں ہوا۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔