Dawn News Television

شائع 25 اکتوبر 2016 09:49am

پاک-بھارت کشیدگی اور شفقت امانت کا کھلا خط

پاکستانی گلوکار شفقت امانت علی کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کو حکومتیں فروغ دے رہی ہیں، عوام اور فن کا ان سب سے کوئی تعلق نہیں۔

انڈین ایکسپریس کو ایک کھلے خط میں شفقت امانت علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک نہایت سیدھا سا سوال پوچھا۔

ان کا کہنا تھا 'کیا پاکستان کبیر، غالب، مومن، داغ، فراق، رابندرناتھ ٹیگور، بھمسن جوشی، پنڈت جسراج، اومکرناتھ ٹھاکر، بڑے غلام علی خان، گنگو بائی ہنگل اور اجوئے چکرابرتے کو اس لیے چھوڑ سکتے ہیں کہ ان کی سرحد الگ ہے؟ اور کیا ہندوستان میں ایسا کوئی ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ بابا فرید، بلھے شاہ، شاہ حسین، وارث شاہ، سلطان باہو، فیض احمد فیض، احمد فراز اور انتظار حسین کو بھول جائیں؟'

انہوں نے مزید لکھا کہ 'سرحد کی تقسیم کتابوں میں کی جاتی ہے، میوزک، فن، ثقافت، زبان، لباس، پکوان اور پیار ان دونوں ممالک میں علیحدہ نہیں'۔

اپنے خط میں شفقت نے مزید لکھا کہ سوشل میڈیا پر دونوں ممالک کے لیے بہت نفرت آمیز باتیں کی جارہی ہیں جو برصغیر کی روح کے لیے نقصان دہ ہے۔

شفقت کے مطابق 'میرے خیال سے فن اور فنکار لوگوں کے اجتماعی شعور کو بڑھاتے ہیں اور ایسا وہ ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں، ہم نے کبھی لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، کشور کمار، محمد رفیع، آر ڈی برمن کو ہندوستانی گلوکار نہیں سمجھا، ہم انہیں فنکار سمجھتے ہیں، بالکل اسی طرح پاکستانی فنکاروں فریدہ خانم، عابدہ پروین، نور جہاں اور مہدی حسن کو ہندوستانیوں سے بے حد پیار ملا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فن دوریاں کم کرتا ہے'۔

ہندوستان میں پاکستانی فنکاروں کے کام پر پابندی کے حوالے سے شفقت نے اپنے خط کا اختتام ایک شعر سے کیا 'ایک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے، جس کا ہمسائے کے آنگن میں سایہ جائے'۔

Read Comments