Dawn News Television

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2021 04:48pm

یونانی بیوی سے بیٹے کے حصول کی جنگ

اگر کسی پاکستانی سے پوچھا جائے کہ وہ ملک میں رہنا پسند کرے گا یا بیرون ملک روزگار کو ترجیح دے گا تو امکان ہے کہ ہر دس میں سے 7 یا 8 افراد بیرون ملک جانے کو ترجیح دیں گے۔

درحقیقت متعدد پاکستانی قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے ملک سے باہر جاتے ہیں اور اگر وہ ذریعہ قانونی نہ ہو تو پھر پردیس میں ان کو ہر طرح کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

جس کی ایک مثال پنجاب کے شہر نارووال سے تعلق رکھنے والے افتخار احمد ناگرہ کی ہے جن کی غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے کی داستان کسی کی بھی آنکھیں کھول سکتی ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2012 تک افتخار احمد غیر قانونی طور پر یونان میں مقیم رہے اور ایک یونانی خاتون آپوستولیا کے ساتھ وطن واپس آکر شادی کی جو لگ بھگ 2013 تک ان کے ساتھ پاکستان میں رہی۔

بظاہر افتخار احمد کا مقصد اس شادی کے ذریعے یونانی شہریت حاصل کرنا تھا اور شادی کے بعد وہاں جانے کے لیے یونانی سفارتخانے کو ویزے کی کئی بار درخواست دی مگر اسے ہر بار مسترد کیا گیا۔

افتخار احمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا'’مجھے سفارتخانے کے اندر بھی جانے نہیں دیا جاتا اور صرف میری بیوی سے ملاقات کرکے پوچھا جاتا کہ ہمارا اس کے ساتھ سلوک کیسا ہے'۔

اس جوڑے نے یونان کے مختلف محکموں سے بھی رابطے کیے مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، پھر آپوستولیا حاملہ ہونے کے بعد یونان واپس چلی گئیں اور جنوری 2014 میں بیٹے کی پیدائش ہوئی، مگر اسی سال یونانی سفارتخانے نے افتخار احمد کی ویزے کی درخواست حتمی طور پر مسترد کر دی ۔

اس دوری نے جوڑے کے درمیان تعلق کو بھی کمزور کیا اور افتخار احمد کے بقول 'باہمی رابطہ برقرار رہنے کے باوجود خلیج سی پیدا ہونے لگی مگر مجھے لگتا تھا کہ یونان پہنچ جانے پر حالات پھر پہلے جیسے ہوجائیں گے'۔

حالات میں بہتری لانے کے لیے ہی افتخار احمد ایران اور ترکی کے راستے غیر قانونی طور پر یونان جانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایرانی ویزہ بھی حاصل کرلیا، مگر ترکی میں داخلے سے پہلے سرحدی اہلکاروں کی فائرنگ سے زخمی ہوکر گرفتار ہوگئے۔

مگر اس پاکستانی کا عزم کمزور نہیں ہوا اور ملک واپس آتے ہی ایران اور ترکی کا ویزہ حاصل کیا اور وہاں پہنچ کر دیگر تارکین وطن کی طرح سمندری راستے سے یونان پہنچ گئے۔

وہاں پہنچ کر پہلے تو سیاسی پناہ کی درخواست دی اور پھر اپنی بیوی اور بیٹے سے ملنے کی کوشش کی تو غیر متوقع صورتحال نے ان کے ہوش اڑا دیئے' میں اپنی بیوی سے ملنے اس کے گھر پہنچا تو پہلی جھلک دیکھتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو اٹھایا اور سڑک پر دوڑنا شروع کردیا، جبکہ میری سالی نے میرا ہاتھ پکڑ کر پولیس، پولیس چلانا شروع کریا، ایسا لگتا تھا کہ میں اس خاتون کا شوہر اور بیٹے کے باپ کے بجائے کوئی اغوا کار ہوں'۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ آپوستولیا یونان آکر کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے لگی تھی اور دستاویزات میں بیٹے کی ولدیت میں بھی اسی بوائے فرینڈ کا نام درج تھا۔

کسی طرح افتخار کو بیٹے سے ملنے کی اجازت تو مل گئی مگر ملاقات کے دوران اس کی بیوی نے پولیس کو بلاکر اسے گرفتار کرادیا۔

پولیس کی حراست میں افتخار کو معلوم ہوا کہ پہلی دفعہ غیر قانونی آمد پر 2013 میں اس کی غیر حاضری پر ایک یونانی عدالت نے تین سال کی سزا سنادی تھی۔

افتخار کا کہنا تھا' گرفتاری کے فوری بعد یونانی پولیس اپنے ملک سے مجھے نکالنے کے لیے زور دیتی رہی ورنہ تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جاتا' مگر پھر حیرت انگیز طور پر پولیس نے اسے رہا بھی کر دیا۔

رہائی کے بعد افتخار نے بیٹے کے حصول کے لیے وکیل کی مدد حاصل کرکے یونانی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا جو تاحال زیرسماعت ہے، جبکہ یہ پاکستانی شہری ملک بدر کیے جانے کے خوف سے جرمنی پہنچ چکا ہے۔

افتخار اب اپنے وکیل کی مدد سے یونان میں مقدمے کی پیروی کر رہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ اس کے بیٹے کو اس تک باپ کی اصل پہچان ملنی چاہیے۔

افتخار احمد ناگرہ جرمنی میں بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے چکا ہے، جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

Read Comments