پاکستان

وفاقی کابینہ کا سیاسی ماحول بہتر بنانے کا فیصلہ

وفاقی کابینہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارلیمنٹ میں اظہار خیال کا پورا موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارلیمنٹ میں اظہار خیال کا پورا موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملک کے سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے تحریک انصاف کے جائز مطالبات ماننے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں 23 نکاتی ایجنڈے پر غور کرنے کے بعد زیادہ تر سمریوں کی منظوری دے دی گئی۔

اجلاس میں وفاق کے زیر انتظام فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں مجوزہ انضمام کے حوالے سے بھی غور کیا گیا۔

ایجنڈا آئٹمز میں سے زیادہ تر پاکستان کے مختلف شعبوں میں دوسرے ممالک سے تعاون سے متعلق تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ایک گھنٹے سے زائد وقت تک اپنی کابینہ کے ساتھیوں سے سیاسی امور پر گفتگو کی، جس میں مختلف وزارتوں اور سرکاری شعبوں کے حکام کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’وزیراعظم کہہ دیں قطری شہزادے کا خط غلط فہمی پر مبنی تھا‘

کابینہ کے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ تمام سیاسی معاملات کا حل سیاسی طریقے سے نکالا جانا چاہیے، تاکہ ملک میں جمہوریت پروان چڑھ سکے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں بدھ کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کے ماحول کو دوستانہ اور قانون سازی کے لیے سازگار بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سامنے آئیں گے۔

یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومتی ارکان تمام اہم معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے۔

کابینہ کے چند اراکین نے پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ ختم کرنے کے فیصلے کو مثبت پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکمراں جماعت کو بھی ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

وفاقی کابینہ کے سیاسی مفاہمت کے فیصلے کی جھلک جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس وقت نظر آئی، جب پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو پاناما لیکس اور وزیر اعظم کی 16 مئی کو ایوان میں متنازع تقریر سمیت کوئی بھی معاملہ اٹھانے کا موقع دیا گیا۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ، اپوزیشن کی تحریک استحقاق مسترد

فاٹا اصلاحات

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں مجوزہ انضمام کے حوالے سے بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا وزیر اعظم ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ’یہ ایک اہم موقع ہے جب موجودہ حکومت نے فاٹا کے 70 سالہ پرانے نظام کو تبدیل کرنے اور اس کے عوام کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران ریاستی و سرحدی امور (سیفران) کے وزیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ ’قبائلی علاقوں کی آئندہ پانچ سالوں میں مرحلہ وار خیبر پختونخوا میں انضمام کی تجویز دی گئی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فاٹا کے لیے دس سالہ ترقیاتی منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے، جس کے لیے صوبوں کے بجٹ کا 3 فیصد حصہ (تقریباً 110 ارب روپے) مختص کیا جائے گا، چونکہ اس معاملے کو براہ راست صوبوں سے تعلق ہے، اس لیے یہ معاملہ جمعہ کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ’2018 سے قبل فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام‘

عبد القادر بلوچ نے کہا کہ ’اگرچہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو فاٹا اصلاحات پر خدشات ہیں، لیکن انہوں نے بھی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی مخالفت نہیں کی۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’فاٹا کے عوامی نمائندوں کو 2018 میں خیبر پختونخوا اسمبلی کا رکن بننے کا موقع ملے گا، فاٹا سے اس وقت 8 سینیٹرز اور 11 اراکین قومی اسمبلی سمیت 19 پارلیمنٹیرینز ہیں اور انہوں نے بھی فاٹا کے خیبر پختونخوا میں مجوزہ انضمام کی حمایت کی ہے۔‘

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے جانے دیگر فیصلوں میں مشترکہ مفادات کونسل کے مستقل سیکریٹریٹ کا قیام، افغان مہاجرین کا ملک سے انخلا، ڈیزاسٹر منیجمنٹ پر چین سے مذاکرات، ڈیزاسٹر رسک منیجمنٹ کے لیے کیوبا سے تعاون، میانمار سے دفاعی تعاون، الجیریا اور کویت سے مختلف شعبوں میں تعاون اور پاک ۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق فیصلے شامل ہیں۔


یہ خبر 16 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔