• KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C
  • KHI: Clear 17.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 12°C
  • ISB: Partly Cloudy 12°C

قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ، اپوزیشن کی تحریک استحقاق مسترد

شائع December 14, 2016

اسلام آباد: قومی اسمبلی کا اجلاس حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان بحث اور ہنگارمی آرائی کی نذر ہوگیا جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس کی کارروائی جمعرات کی شام 4 بجے تک ملتوی کردی۔

پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے علیحدہ علیحدہ تحریک استحقاق جمع کرائی تھیں جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے اثاثوں کے حوالے سے ایوان میں جو خطاب کیا اس میں تضاد تھا لہٰذا انہوں نے ارکان کو گمراہ کیا۔

پیپلز پارٹی کی تحریک استحقاق
پیپلز پارٹی کی تحریک استحقاق

پیپلز پارٹی نے اپنی تحریک استحقاق میں کہا تھا کہ ’وزیراعظم نے اپنے وکیل کے توسط سے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ ان کی 16 مئی کو پارلیمنٹ کی تقریر ’سیاسی بیان‘ تھا اور اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماضی میں دیے جانے والے پالیسی بیانات کو بھی ایسا ہی سمجھا جائے‘۔

پی ٹی آئی کی تحریک استحقاق
پی ٹی آئی کی تحریک استحقاق

پی ٹی آئی نے اپنی تحریک استحقاق میں کہا کہ ’وزیراعظم نے ایوان کو بتایا تھا کہ ان کے پاس خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے حوالے سے دستاویز موجود ہیں لیکن ان کے وکیل نے کہا کہ کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ کیوں کہ تمام کاروبار پرچیوں کے ذریعے ہوا‘۔

تاہم اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے یہ کہہ کر تحریک استحقاق کو مسترد کردیا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے لہٰذا ایوان میں اس پر بات نہیں کی جاسکتی۔

اس دوران قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے دھواں دار تقریر کرتے ہوئے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

خورشید شاہ نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے جب ہم سنتے ہیں کہ آنے والے چیف جسٹس ن لیگ کے اپنے آدمی ہیں‘۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ’ن لیگ ایسا نہیں کہتی لیکن لوگ ایسا ضرور کہہ رہے ہیں‘۔

اس پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ چیف جسٹس پورے پارلیمنٹ بلکہ پوری ملک کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بائیکاٹ ختم، عمران خان کا پارلیمنٹ جانے کا اعلان

وزیراعظم معافی مانگتے تو قوم معاف کردیتی

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ قومی اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو / ڈان نیوز
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ قومی اسمبلی سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو / ڈان نیوز

خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ایوان میں اپنے اثاثوں کے حوالے دیے جانے والے بیان میں تضاد ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سپریم کورٹ میں پاناما گیٹ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ سیاستدان سیاسی بیانات دیتے ہیں لہٰذا انہیں قانونی بیان نہیں سمجھنا چاہیے۔

خورشید شاہ نے وزیراعظم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ سامنے آتے اور معافی مانگتے تو عوام آپ کو معاف کردیتی، لیکن کم سے کم آپ سامنے تو آئیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف تو کریں‘۔

اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے معاملہ عدالت میں ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا اور خورشید شاہ کو اس معاملے پر بات نہ کرنے کی ہدایت کی تاہم خورشید شاہ نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ایوان اعلیٰ عدلیہ سے زیادہ مقدس ہے کیوں کہ اس ایوان کے اندر پاکستان کے 20 کروڑ عوام کا مینڈیٹ موجود ہے اور یہ سارے اداروں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ جب اس ایوان کو بچانے کی بات آتی ہے تو بطور اپوزیشن لیڈر میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں وزیراعظم کے بیان میں تضاد پر تحریک استحقاق پیش کروں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ ہی ہے جس نے وزیراعظم کے وجود کو تسلیم کرایا اس کے علاوہ انہوں نے پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کی جانے والی تقریر کو بھی دہرایا۔

اس موقع پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ عمومی بات کی جائے کیوں کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔

مزید پڑھیں: ’جب تک سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے پارلیمنٹ نہیں جائیں گے‘

خورشید شاہ نے کہا کہ معاملہ عدالت میں چلتا رہے گا، ابھی سماعت نہیں ہورہی، چیف جسٹس بھی تبدیل ہورہے ہیں جبکہ ایوان اعلیٰ عدلیہ سے زیادہ مقدس ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ عدلیہ اوردیگراداروں پرانگلی نہیں اٹھاناچاہتے، چیف جسٹس احترام کے لائق ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان بھی موجود تھے جو رواں سال اکتوبر سے پارلیمنٹ کے اجلاس کے بائیکاٹ پر تھے۔

گزشتہ روز تحریک انصاف کے چیئرمین نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تحریک استحقاق اور تحریک التواء جمع کرائیں گے۔

پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی

مشتعل ارکان اسمبلی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا رہے ہیں — فوٹو/ ڈان نیوز
مشتعل ارکان اسمبلی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اڑا رہے ہیں — فوٹو/ ڈان نیوز

خورشید شاہ کے خطاب کے دوران حکومتی ارکان اسمبلی شور شرابہ کرتے رہے تاہم جب اسپیکر کی جانب سے حکومتی بینچ سے وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کو بولنے کی اجازت دی گئی تو اپوزیشن بینچوں میں موجود پی ٹی آئی کے ارکان نے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔

پی ٹی آئی کے ارکان کا موقف تھا کہ اسپیکر نے انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔

اپوزیشن ارکان نے احتجاجاً قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ دیں جبکہ حکومتی و اپوزیشن ارکان نے ایک دوسروں کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

اسپیکر سردار ایاز صادق نے اجلاس کی کارروائی جمعرات کی شام 4 بجے تک ملتوی کردی۔

ایوان میں اپنے مختصر خطاب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پی ٹی آئی صرف لڑائی کرنا چاہتی ہے، وہ جمہوریت کے خلاف سازش میں مصروف ہے اور ان کے ارکان اسمبلی میں صرف اس لیے آتے ہیں تاکہ یہاں سے انہیں تنخواہیں ملتی رہیں۔

پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت سے قبل خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے درمیان علیحدہ ملاقات بھی ہوئی جس میں دونوں رہنماؤں نے پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا تھا۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کے پارلیمنٹ اور عدالت میں دیے جانے والے بیانات میں تضاد پر پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے تحریک استحقاق جمع کرائی تھی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کی شام 4 بجے شیڈول تھا تاہم اس سے قبل ہی ہاؤس کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں اسپیکر نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ اجلاس کے دوران قانون سازی پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی اور دیکھنا ہوگا کہ تحریک استحقاق کو منظور کیا جائے یا نہیں۔

تاہم سوال و جواب کا سیشن ختم ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر نے خطاب شروع کردیا اور حکومت پر تنقید کے نشتر برسانا شروع کردیے۔

تحریک استحقاق کوئی بھی رکن اسمبلی اس وقت اسپیکر کو پیش کرسکتا ہے جب وہ سمجھتا ہو کہ کسی بھی رکن اسمبلی، پارلیمانی کمیٹی یا خود اس کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔

اس سلسلے میں ضروری ہے کہ رکن اسمبلی اس معاملے پر بات کرنے کے لیے تحریری طور پر سیکریٹری کو اسی روز آگاہ کرے جس روز وہ ایوان میں اس پر بات کرنا چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما گیٹ کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی ہے جبکہ 31 دسمبر کو جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب سنبھال لیں گے۔


کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025