باصلاحیت باؤلر عباس کی قومی ٹیم کے دروازے پر دستک
مت سہل جانو بھرتا ہے فلک برسوں پھر خاک کے پردوں سے انساں نکلتے ہیں
پاکستان کے باصلاحیت لوگ دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں وہ اپنی صلاحیتوں اور فن سے پوری دنیا کو حیران کر دیتے ہیں، ارفع کریم مرحومہ ہوں یا کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروگرامر حمزہ شاہد ، ان جیسے با صلاحیت افراد نے اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ایسی ہی منزل تک پہنچنے کی آس میں سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال کے گاؤں جیٹھی کا 26 سالہ نوجوان کھلاڑی محمد عباس ہے جو اپنی کارکردگی کے بل پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے در پردستک دے رہا ہے۔
محمدعباس کے کرکٹ کیریئر پر ایک نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں ان کا کرکٹ کھیلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔
والدین کی توقعات اور خواہشات دیکھتے ہوئے عباس نے ایک چمڑے کی فیکٹری میں ملازمت کو ترجیح دی اور ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن یہ منزل کسی بھی طور آسان نہ تھی۔
گھر کے ناگفتہ با مالی حالات مزید ابتر ہوئے تو انہوں نے اپنی تعلیم ترک کردی اور والد کے ساتھ ٹینٹ سروس کی شاپ پر بیٹھ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: 2016 کے سنسنی خیز ٹیسٹ میچ
ڈان سے بات کرتے ہوئے محمد عباس نے کہا کہ 'مجھے گاؤں کے لوگ کہا کرتے تھے کہ کرکٹ کیوں کھیلتے ہو؟ کوئی ایسا کام کرو جس سے اپنے والدین کا سہارا بن سکو، 'نہ تم بڑے آدمی کے بیٹے ہو اور نہ ہی تمہاری کوئی سفارش ہے، اپنا وقت ضائع کر کے خود کو بے وقوف کیوں بناتے ہو؟'۔
لیکن میرا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ’میں کرکٹ کو بطور پیشہ اپنا چکا ہوں اور اب پیشہ نہیں بدلوں گا‘۔