Dawn News Television

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2017 04:38pm

’کیا میں یہ ٹانگ اپنے پاس رکھ سکتی ہوں؟‘

زندگی میں پیش آنے والی مشکلات سے نمٹنے کا حل اوکلوہاما سے تعلق رکھنے والی کرسٹی لویال بہترین انداز میں سیکھ چکی ہے۔

اپریل 2016 میں کینسر کا شکار ہونے والی 25 سال کرسٹی لویال کو جب ڈاکٹروں نے اس بات سے آگاہ کیا کہ کینسر کو جسم میں مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے انہیں کرسٹی کی ٹانگ کاٹنی پڑے گی تو ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ ’کیا میں اپنی ٹانگ اپنے پاس رکھ سکتی ہوں؟‘

ڈاکٹرز نے بھی کرسٹی کی اس خواہش کو پورا کرتے ہوئے متاثرہ ٹانگ ان کے حوالے کردی۔

حیرت انگیز طور پر کرسٹی نے اپنی ایک ٹانگ سے محرومی کو اپنے لیے کمزوری نہیں بننے دیا اور اس کٹی ہوئی ٹانگ کو اپنی پہچان بنالیا۔

معذوری کے باوجود کرسٹی کا گھومنے پھرنے کا شوق بالکل کم نہ ہوا بلکہ اب وہ جہاں جاتی ہیں، اپنے ساتھ اپنی کٹی ہوئی ٹانگ کے ڈھانچے کو بھی لے کر جاتی ہیں۔

معذوری کو شکست دینے کی بہترین مثال کرسٹی کا انسٹاگرام اکاؤنٹ ہے جہاں ان کے کٹے ہوئے ہاتھ کی بے شمار تصاویر موجود ہیں۔

اسکیٹ بورڈنگ کے شوق کو بھی کرسٹی نے تصاویر میں زندہ کر رکھا ہے۔

سردی بڑھے تو وہ موزے اب بھی دونوں پیروں میں پہنتی ہیں

شاید کچھ لوگ کرسٹی کی ٹانگ کے ڈھانچے کی ان تصاویر سے خوفزدہ ہوتے ہوں لیکن زیادہ تر افراد ان تصاویر کو ان کے حوصلے کی مثال قرار دیتے ہیں۔

کرسٹی یہ بات ثابت کرچکی ہیں کہ اگر انسان ہمت کرے تو اس کی معذوری کسی بھی رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکتی۔

Read Comments