پاکستان

ملازمین اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کے خلاف

جن لوگوں نے اس قومی اثاثے کو گھٹنوں پر لاکھڑا کیا ان کا احتساب کیا جائے، ملازمین کا وزارت خزانہ اور نجکاری کو خط

اسلام آباد: پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین نے حکومت کی جانب سے اسٹیل ملز کو 30 سال کے لیے لیز پر دینے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جن لوگوں نے اس قومی اثاثے کو گھٹنوں پر لاکھڑا کیا، ان کا احتساب کیا جائے۔

وزارت خزانہ، نجکاری اور صنعت و پیداوار کو بھیجے گئے ایک خط میں اسٹیل ملز ملازمین کی یونین (سی بی اے) نے مستقبل میں نجی آپریٹرز پر اسٹیل درآمد کرنے پر ریگولیٹری اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز کے مجوزہ نفاذ یا اسٹیل درآمد کرنے پر پابندی سے متعلق بھی سوالات اٹھائے۔

یونین نے اپنے خط میں اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ جب اسٹیل ملز عوامی ہاتھوں میں تھی تو بار بار درخواستوں کے باوجود اس طرح کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔

یونین نے الزام لگایا ہے کہ گزشتہ 3 سال میں اسٹیل ملز کی مالی حالت بد سے بدتر ہوئی ہے، 30 جون 2013 کے اسٹیل ملز کے نقصانات اور واجبات کا تخمینہ 2 کھرب تھا جو حکومت کی ناکام پالیسیوں اور ترجیحات کے باعث 31 دسمبر 2016 تک بڑھ کر 4 کھرب 15 ارب تک پہنچ گیا۔

مزید پڑھیں: اسٹیل ملز کو لیز پر دینے کیلئے سفارشات کی تیاری

نجکاری کمیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حال ہی میں مالیاتی مشیروں اور کمیشن کی تجویز پر اسٹیل ملز کو ریونیو تقسیم کے فارمولے اور 5 ہزار ملازمین کی رضاکارانہ علیحدگی یعنی والنٹری سیپریشن اسکیم (وی ایس ایس) کے تحت 30 سال کے لیے لیز پر دینے کی منظوری دی ہے۔

معاہدے کے تحت حکومت رضاکارانہ علیحدگی اختیار کرنے والے 4 ہزار 835 ملازمین کو ایک کھرب 66 ارب روپے کی ادائیگیاں کرے گی، جس کے بعد اسٹیل ملز کے پاس نصف افرادی قوت اور آؤٹ سورسز پر کام کرنے والے نئے آپریٹرز باقی رہ جائیں گے۔

مجوہ معاہدہ آنے والے آپریٹرز کو ریگولیٹری اینڈ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز کے تحت باہر سے درآمد شدہ اسٹیلز کی خریداری پر بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اگرچہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں قائم کابینہ کی نجکاری کمیٹی نے اس مجوزہ منصوبے کی منظوری نہیں دی، تاہم ریونیو بورڈ نے لیز کے دورانیے میں حکومت کے ساتھ منافع کی تقسیم کی تجویز پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔

معاہدے کے تحت حکومت اپنے 33 ارب روپے کے قرضوں اور گارنٹی کو اکیوٹی اور اشو کے منافع بخش کوپن میں تبدیل کرنے سمیت سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے انٹرسٹ بیرئنگ کوپنز کی مد کے 35 ارب کے بقایاجات، بینکوں کے منافع اور ری پیمنٹ کے 50 ارب اور ملازمین کی علیحدگی کے 17 ارب روپے کا بوجھ برداشت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اسٹیل ملز کو 45 سال کیلئے لیز پر دینے کی تیاری

منصوبے کے تحت اسٹیل ملز کی زمین حکومت کی ہی ملکیت رہے گی، جب کہ اس کی مشینری اور آلات 30 سال کی لیز پر نئی کمپنی کے حوالے کیے جائیں گے، لیز پر زمین اور مشینری حاصل کرنے والی کمپنی زمین اور سامان کو فروخت نہیں کر سکے گی۔

اصل معاہدے میں تبدیلی کرتے ہوئے بعد ازاں نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کو بقایاجات کی مد میں کچھ زمین فراہم کی گئی۔

اسی بحران کے تناظر میں ورکرز یونین سی بی اے نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے جون 2015 میں زبردستی اسٹیل ملز کو بند کردیا تھا، جب کہ اس کے ملازمین کو حکومت کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ملازمین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 سال کے دوران سرکاری خزانے کو 215 ارب روپے کا نقصان پہنچانے والے شخص کا احتساب ہونا چاہئیے، اسٹیل ملز میں پیداواری عمل رک جانے کی وجہ سے ملک کے اوپر 1.5 ارب امریکی ڈالر قرضہ ہوگیا۔

ملازمین نے دعویٰ کیا کہ اسٹیل ملز اب بھی ایک گھنٹے میں 30 لاکھ روپے کی پیداوار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، ورکرز کے مطابق خام مال نہ ملنے، گیس کی فراہمی نہ ہونے اور حکومت کے ذمے دیگر لاجسٹکس مسائل کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان اسٹیل ملز کو 30 سالہ لیز پر دینے کی منظوری'

ملازمین کے خط میں کہا گیا کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی، میڈیکل سہولیات اور ریٹائرمنٹ کی مراعات نہ ملنے کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں جب کہ متعلقہ وزارت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

یونین نے الزام عائد کیا کہ اسٹیل ملز کی 157 ایکڑ زمین پورٹ قاسم اتھارٹی کو 90 لاکھ روپے فی ایکڑ پر فراہم کی گئی ہے، جب کہ اس زمین کی قدر 3 کروڑ فی ایکڑ ہے۔

علاوہ ازیں خط میں نجکاری کمیشن کو درخواست کی گئی ہے کہ جولائی تا دسمبر 2015 کے درمیان آڈیٹر جنرل کی جانب سے کیے گئے آڈٹ میں مالی بے ضابطگیوں کی رپورٹس سامنے آنے کے باوجود کسی بھی ذمہ دار شخص کے خلاف اب تک کارروائی نہیں کی گئی۔

اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے ڈان نے وزیر نجکاری محمد زبیر سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوششیں کیں، مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔


یہ خبر 30 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی