یہ اسٹوپا کیا اس سڈیرن کا ہے جو بے گناہ مارا گیا؟
یہ اسٹوپا کیا اُس سڈیرن کا ہے جو بے گناہ مارا گیا؟
شاید میں یہ فیصلہ کبھی نہ کر سکوں کہ لوک کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں یا نہیں۔ مگر اتنا یقین ضرور ہے کہ تھوڑی ہی سہی سچائی تو ہوگی جس کی بنیاد پر یہ لوک کہانیاں صدیوں تک نسل در نسل سفر کرتی رہتی ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے میری نانی اور میری خالہ کو کئی کہانیاں زبانی یاد تھیں۔ مئی اور جون میں جب دوپہر تپتی تو ہمارے محلے میں ہولناک سناٹا چھا جاتا، شدید دھوپ اور گرمی گھر سے باہر جیسے کسی لاوے کی طرح بہتی۔ تب گھر کی ٹھنڈک کا ایک رومانوی احساس سارے وجود میں گھر کر جاتا۔
دو ڈھائی گھنٹوں کے اس دورانیے میں مجھے کبھی نیند نہیں آئی۔ اور میں نانی اماں کی گود میں سر رکھ کر کہانیاں سنتا رہتا۔ جب زندگی نے مجھ سے کہا کہ اب بچپنا ختم، تب میں نے نانی اماں سے پوچھا،’کہانیاں بھی ختم؟‘
تب اُنہوں نے کہا، نہیں, کہانیاں تو حقیقتوں اور تمناؤں کی فصلوں کی طرح ہوتی ہیں، جن میں دُکھ اور سُکھ کی کیفیوں کے بیج بوئے ہوتے ہیں۔ وقت کی ہوا لگتی ہے تو یہ بیج ہوا کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ جہاں ہوا نے چھوڑا وہیں اگ جاتے ہیں۔ یہ ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔
رچرڈ ایف برٹن جب 1845 میں جب سندھ آئے تو اُنہوں نے کئی مقامی لوک اور نیم تاریخی کہانیوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ آئیے ان میں سے ہی ایک تاریخی کہانی کے سفر میں ہم بھی اُن کے ساتھ چلتے ہیں۔
رچرڈ برٹن منظرناموں اور اُن میں شامل حقیقتوں کا مشاہدہ کرنے میں کمال حد تک مہارت رکھتے تھے۔ وہ سفر میں جو بھی دیکھتے وہ تحریری صورت میں آنے والے زمانوں کے لیے قلمبند کرتے تھے۔ چاہے وہ رہٹ کی آواز ہو، کسی پرندے کی اُڑان کی سرسراہٹ، طلوع آفتاب کی خوبصورتی یا پھر شام کی لالی میں چُھپی اُداسی ہو۔