Dawn News Television

اپ ڈیٹ 30 جون 2017 06:34pm

اب پیپلز پارٹی کی کون سی وکٹ گرنے والی ہے؟

پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی مالا سے ایک ایک کر کے تمام دانے گرتے اور بکھرتے جا رہے ہیں۔ پنجاب ہی کسی سیاسی جماعت کو ایوان اقتدار تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے ہوم گراؤنڈ پر پیپلز پارٹی کی وکٹیں کیسے گر رہی ہیں۔

راجا ریاض سے شروع ہونے والی یہ کہانی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ فیصل آباد کے اس جیالے کے بعد سب سے بڑی وکٹ فردوس عاشق اعوان کو سمجھا گیا جس نے تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی جیسی انقلابی جماعت ڈھونڈ نکالی۔

چلیں مان لیتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں کل کل آئی تھیں اور ان کے جانے سے کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑنے والا، لیکن نذر محمد گوندل تو پرانا جیالا ہے وہ کیوں چلا گیا اور اب کہاں کھڑا ہے؟

اور پھر بابر اعوان، دو دہائیوں تک پیپلز پارٹی سے ساتھ نبھانے والا جیالا وکیل، اسے بھی بی بی صاحبہ کی جماعت کے آئیڈیلز اب کہیں نظر آ رہے ہیں تو وہ تحریکِ انصاف ہے۔

اور یہ جو غضنفر گل دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس نے پیپلز پارٹی کی وجہ سے منہ میں گولیاں کھائی ہیں، ان کا بھٹو کی جماعت سے افیئر ختم ہونے کا کوئی تو سبب ہوگا؟

امتیاز صفدر وڑائچ اور کئی سابقہ مملکتی وزرا کیوں زرداری صاحب کی جماعت کو چھوڑتے جا رہے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے وہ کون سے رہنما ہیں جن کے لیے تحریک انصاف دعویٰ کر رہی ہے کہ مزید کئی لیڈر شمولیت کا اعلان کریں گے، اس لمبی لسٹ میں کون کون شامل ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ندیم افضل چن اور قمرالزماں کائرہ بھی آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی سے اکتا سے گئے ہیں، بس دل کی بات زبان تک نہیں لا سکتے؟

لیکن کتنے دن؟ اس کا جواب تو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے پاس ہی ہوگا کہ پرانے جیالوں کا اس نظریاتی جماعت سے محبت کا خاتمہ کیوں کر ہوتا جا رہا ہے؟ کئی رہنما اور پرانے کارکن اس بیچ دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے کئی سیاسی راستے نکلتے ہیں اور آج کی پیپلز پارٹی کو بھی ایسے چوراہے پر کھڑا کر دیا گیا ہے کہ ہر کوئی جانے والا یہ ہی کہتا جا رہا ہے کہ "سیاست میں سب جائز ہے۔"

پنجاب میں انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی منڈیوں میں بے وفائی اور وفاداری کو تولنے کے لیے ایک ہی کانٹا استعمال ہوتا ہے، لیکن ابھی تو انتخابات کا منظرنامہ بھی واضح نہیں، یہ کیا ہوا کہ سب سے بڑی عوامی، سیاسی اور نظریاتی جماعت ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی انتخابات سے پہلے ہر سرد و گرم میں ساتھ دینے والے اپنے نظریاتی کارکنان کو ساتھ رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے؟

اور خالی پنجاب ہی کیوں، خیبر پختونخواہ سے بھی تو پیپلز پارٹی سے الوداعی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ بلوچستان کی سیاست کے انداز ہی اپنے ہیں۔ سندھ کو تو رئیس بڑے نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے، لیکن اب کی بار صورتحال تبدیل ہوگی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا صفایا تو نظر نہیں آتا، مگر عین ممکن ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کے اندر پیپلز پارٹی جنم لے لے۔

تمام صوبوں، سارے ملک، پوری قیادت اور سیاسی جماعتوں کے ارکان کو پتا ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی وکٹیں ایک ایک کر کے گر رہی ہیں۔ جسے یہ پتا نہیں ہے وہ صرف اور صرف آصف علی زرداری ہیں۔ یا شاید وہ حقیقت کو سمجھنا نہیں چاہتے، اس لیے تو وہ کہتے رہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کوئی خطرہ نہیں، کچھ دوست ناراض ہیں جن کو میں اور بلاول منٹوں میں منا لیں گے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج کا سچ یہ ہے کہ پنجاب آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے ہونے کو کسی بھی صورت میں تیار نہیں۔

اس بار پیپلز پارٹی سرکاری مسلم لیگوں کے بکھرنے کی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔ ہمارے کامریڈ دوست چوہدری منظور سے لے کر مخدوم شہاب الدین تک سب کے سب آصف علی زرداری برانڈ پیپلز پارٹی سے نالاں ہیں۔ بظاہر نظر آنے والی صورتحال سے لگ تو یوں رہا ہے کہ آئندہ انتخابات تک پنجاب میں پارٹی کا شاید ہی کوئی نام لیوا رہے۔

منظور وٹو صاحب نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا جو صفایا کرنا تھا وہ کر دیا۔ ان کی جگہ پر قمرالزمان کائرہ کو صوبائی صدارت تفویض کرنا اصل میں نظریہ ضرورت کی اعلیٰ مثال تھی، لیکن اب کائرہ صاحب کو بھی احساس ہو چکا ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کے مردہ جسم میں روح پھونکنا آسان کام نہیں۔

ویسے بھی موجودہ پیپلز پارٹی میں روح پھونکنے کا دل کائرہ صاحب کا بھی نہیں کرتا، کیوں کہ وہ شریک چیئرمین زرداری صاحب کی چوائس تو ہیں بھی نہیں۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ قمر الزماں کائرہ پنجاب کے ان جیالوں کی ترجمانی کرتے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ زرداری صاحب اب آرام کریں اور محترمہ فریال تالپور کو پیپلز پارٹی کے معاملات سے دور رکھا جائے۔

پنجاب کی تقریباً پوری قیادت اور کارکنان اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ بلاول بھٹو کو سیاسی آزادی ملنی چاہیے۔ یہ کھیپ جو آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں، ان سب کی بھی پہلی خواہش یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت حقیقی معنوں میں بلاول کے پاس ہونی چاہیے، مگر تمام تر مطالبات کے باوجود یہ نہیں ہو سکا۔

ملک کے اندر اور باہر ہوئے اجلاسوں میں کئی گھنٹے اس پر بحث مباحثے ہوئے کہ زرداری صاحب کیوں نہیں اور بلاول کیوں؟ یہ مطالبہ زور پکڑنے پر آصف علی زرداری ایک مرتبہ مان بھی گئے۔ پارٹی چیئرمین شپ بلاول کے حوالے کر دی گئی، لیکن پھر پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کی صدارت پر خود کو براجمان کر کے سب کو حیران کردیا۔

بلاول بھٹو زرداری کو پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ بھی تو پنجاب کی جماعت کے مطالبے پر کیا گیا۔ لیکن جب زرداری صاحب نے خود کو بھی پارلیمنٹ کے لیے تیار کرلیا تو اعتزاز احسن اور کئی پارٹی رہنماؤں کو یہ بات ناگوار گزری، جس کا برملا اظہار بھی کیا گیا۔ پنجاب کی پارٹی آصف علی زرداری کو بلاول کے ساتھ پارلیمنٹ میں اس لیے دیکھنا نہیں چاہتی تھی کہ اس سے بلاول پارلیمانی سیاست میں خود کو آزاد نہیں سمجھیں گے۔

زرداری صاحب نے پارٹی کے اندر اپنی مخالفت دیکھی تو یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر میں پارلیمنٹ نہیں جا سکتا تو بلاول کیوں جائے گا۔ یہ ہی نہیں، بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں یہ اعلان کیا کہ اب ان کا مسکن لاہور ہوگا اور وہ پورے پنجاب کے دورے کر کے پارٹی کی تنظیم سازی کریں گے، لیکن پھر ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر وہ لاہور کو اپنا دوسرا گھر نہیں بنا سکے اور نہ ہی وہ سیاسی دورے ہوئے۔

پنجاب میں عام انتخابات اور پھر مقامی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد بھی پیپلز پارٹی قیادت نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ گذشتہ پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی سوائے نامزدگیوں کی بنیاد پر پارٹی عہدے بانٹنے کے اور کیا تنظیم سازی کر سکی ہے؟ اب تو یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسی مسلم لیگ ق کو اپنا آئیڈیل بنا چکی ہے جسے زرداری صاحب کبھی قاتل لیگ کہتے تھے۔ اگر ایسا نہیں تو پنجاب میں دونوں جماعتوں کا ایک ہی سا حشر کیوں ہے؟

اب اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ یا پاناما مقدمے میں وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز بکھر بھی جائیں تو بھی پیپلز پارٹی کی حالت سنبھلنا مشکل ہے۔ پنجاب کے سیاسی حالات دیکھ کر لگ تو یہی رہا ہے کہ یہاں پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ٹکٹ لینے کے لیے مقامی انتخابات کی طرح امیدوار تک نہیں ملیں گے، جبکہ زرداری صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں مرکزی حکومت بنا کر دکھائیں گے۔

اب ذرا ان کی سیاسی کیلکولیشن کا بھی اندازہ کر لیں، وہ سمجھتے ہیں کہ فیصل صالح حیات اور ان جیسے کچھ ادھر ادھر کے لوگوں کو انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دے کر کچھ نشستیں لینے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ اسی طرح کچھ نشستیں کے پی کے سے اور باقی پورے سندھ سے مل جائیں گی۔

ان کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماءِ اسلام، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سے اتحاد کر کے مرکزی حکومت بنالیں گے، لیکن بظاہر ایسا کچھ نہیں نظر آ رہا ہے۔ انتخابات تک پیپلز پارٹی کا حصہ کون ہوگا کون نہیں، اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔ انتخابات قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے جیسا کام ہمارے ہاں معمول ہے، ایسے میں فیصل صالح حیات اور ان جیسے دیگر کرداروں سے وفا کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ اب فیصل صالح حیات جیسے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے کئی سیاستدان بھی آصف علی زرداری پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ پنجاب کے بعد ایک نظر خیبر پختونخواہ کی پیپلز پارٹی پر ڈال کر دیکھیں وہاں گزشتہ پانچ سالوں میں پارٹی نے ایسا کیا کیا ہے لوگ ٹوٹ کر ان کو چاہیں؟

پیپلز پارٹی کے پاؤں تو کے پی کے میں بھی اکھڑنے لگے ہیں۔ بات صرف ایک سابق ایم این اے نور عالم خان کی نہیں، لیکن نور عالم اس گروپ کی سربراہی کر رہے ہیں جن کا ماننا ہے کہ زرداری صاحب صوبے میں کرپٹ مافیا سے تعلق رکھنے والے افرد کو پیپلز پارٹی میں شامل کر رہے ہیں جن کا عوامی سیاست سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔

گزشتہ پانچ برسوں میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کے پی کے میں کچھ دورے کرنے کے علاوہ اور کیا کام کیا ہے؟صوبائی تنظیم سازی کے نام پر جو نامزدگیاں ہوئی ہیں وہ علاقائی اعتبار سے جماعت میں انتشار کا سبب بن چکی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں اپنی جماعت کا شیرازہ بکھرنے کے حقائق بلاول بھٹو کو معلوم ہوں لیکن وہ کر کچھ بھی نہیں سکتے کیوں کہ پنجاب کی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے بے اختیار چیئرمین ہیں، جو اب بھی بابا اور پھوپھی سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔

Read Comments